الزامات کی سیاست اور سیاسی عدم استحکام !
ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سرا ٹھا لیتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہے جو ختم ہونے کا نام نہی نہیں لے رہا۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا سیاسی نظام دائروں میں گھوم رہا ہے۔ ایک رَٹ ہے جس میں پوری قوم پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ عوام کو درپیش روز مرہ مسائل کے حل اور عوام کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے کیلئے باہمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے الزامات کی سیاست سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔ ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا وہ سب کچھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس وقت کی اپوزیشن بھی میں نہ مانوں پر ہی کاربند ہے اور آج کی صورت حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ مایوس کن ہے۔ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنا ہمارے سیاسی مزاج کا حصہ بن چکا لیکن اب اس میں مزید اضافہ اپوزیشن کی طرف سے ریاست پر لگائے جانے والے ایسے الزامات ہیں جن کاکوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ پھر بھی یہ الزام نہ صرف عوام میں انتشار اور غصہ کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے باہمی نفرتوں کی خلیج بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر بشریٰ بی بی کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو شہد میں زہر ملاکر دیے جانے والی بات نے پی ٹی آئی کے حامیوں میں جس طرح کا ہیجان برپا کیا اس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ملک کی سلامتی کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہوگیاتھا۔جس کا پاکستان دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ جس میں اینکر عمران ریاض کی قید کے دوران اس کی موت کا جھوٹ پھیلاکر عوام میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ 9مئی کے حوالے سے قیدی خواتین کی آبرویزری کا جھوٹ پھیلاتے وقت اتنا بھی نہیں سوچا گیا تھا کہ جذباتی عوام اسے سچ تسلیم کرتے ہوئے کس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہوں گے اور اس طرح کے الزامات سے ان خواتین کے مستقبل پر کس طرح کے اثرات مرتب ہونگے یا ان کے لواحقین پر کیا گزرے گی؟۔ آج نہیں تو کل ان خواتین نے رہا ہونا ہے اور کچھ ہو چکی ہیں۔ رہائی پانے کے بعد وہ کب تک صفایاں دیتی رہیں گی کہ ان کے ساتھ جیل میں جنسی زیادتی نہیں ہوئی۔ وہ جب تک زندہ رہیں گی سیاسی ضرورت کےلئے ان خواتین سے قید میں زیادتی کے حوالے سے پھیلایا گیاجھوٹ ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ جبکہ جنسی زیادتی کے حوالے سے لگائے جانے والے اس طرح کے الزامات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام الناس میں عدم تحفظ کا احساس اس حدتک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے ان محافظوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جو آئے روز وطن اور اس میں بسنے والوں کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ایسے الزامات کو ملک سے باہر بیٹھے ہوئے پاکستان دشمن علیحدگی پسند عناصر بلوچستان و قبائلی اضلاع میں سیکورٹی اداروں کی طرف سے وہاں کی خواتین سے زیادتیوں کا ثبوت بناکر سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کے ذہنوں میں اپنے سیکورٹی کے اداروں کے خلاف نفرتوں کے بیج بونے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
ہماری سیاست میں دو عملی کی حالت یہ ہے کہ امریکہ سے آئے ہوئے سائفر اور اس کے ساتھ امریکی نائب وزیر خارجہ برائے ایشائی ممالک ڈونلڈ لو کو لے کرطویل عرصہ تک پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کو امریکی سازش کا حصہ قرار دیا جاتا رہا۔ ساتھ ہی اندرون خانہ امریکی انتظامیہ سے روابط بھی برقرار رکھے گئے اور سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کی گئی کہ امریکی حکومت ممکنہ طورپر پاکستان کے حالیہ انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہا کرتے ہوئے پاکستان میں نومنتخب حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی لیکن امریکی صدر جوبائیڈن کے پاکستانی وزیراعظم کے نام لکھے گئے خط کے بعد اب الزام تراشیوں نے نئی شکل اختیار کرلی ہے کہ شاید پاکستان کے حکمران امریکہ کے ساتھ پاکستان کے خلاف کسی خفیہ سودے بازی کے چکر میں ہیں۔
اور اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے طویل خط نے نیا بحران برپا کردیا ہے جس نے پورے ملک کو افواہوں اور خدشات کی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو ساتھ ہی پاک فوج اور آئی ایس آئی کا میڈیا ٹرائل بھی زوروں پر ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عدلیہ کے بارے میں عوام میں رائے پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ یہ غیر جانبدار ہر گز نہیں ہے۔ صورتحال پر غور کریں تو الیکشن کے فوری بعد پہلے تو دھاندلی کا شور اٹھا اور پھر میڈیا مہم کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان میں انتخابی عمل پر شکوک و شبہات پیدا کیئے گئے۔ اس کے باوجود بات نہیں بنی تو اچانک اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا لکھا ہوا خط میڈیا کو لیک کر دیا گیا اور تاثر پھیلایا گیا کہ خط اسٹیبلشمنٹ نے از خود لیک کرایا ہے۔ حالانکہ خط کے آخر میں حساس ادارے کے خلاف انتہائی سنگین الزامات لگاتے ہوئے جوڈیشل کونسل سے تادیبی کارروائی کے مطالبے سے لگتا ہے کہ یہ سب اس گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کے ذریعے حیلے بہانے سے پاک فوج اور فوج کے خفیہ اداروں کو ہر سطح پر زیر بحث لانا مقصود ہے۔
اس خط کی وجہ سے پی ٹی آئی حالیہ برسوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر لیڈران کے مقدمات کو بنیاد بنا کر عدلیہ پر حساس ادارے کے دبا? کی بات کررہی ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ انہیں معزز جج صاحبان نے عمران خان کو مختلف مقدمات میں کتنی ضمانتیں دی ہیں اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی کے ڈھیروں وابستگان و ممبران کو انہی جج صاحبان سے کتنی رعایتیں ملی ہیں۔اگر ان جج صاحبان پر دبا? تھا تو پھر یہ رعایتیں کیونکر دی جارہی تھیں اور پھران جج صاحبان کے مطابق وہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کے سامنے بھی ان سے حساس اداروں کے دبا? سے متعلق گزارشات پیش کرچکے تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ہمدرد سمجھے جانے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دبا? ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی۔ کچھ وکلا یہ بھی کہتے ہیں کہ خط لکھنے والے ایک معزز جج کے خلاف کرپشن کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کی تیاری کو دیکھتے ہوئے مذکورہ خط کا سہارا لیا گیا۔ مطلب جتنے منہ انتی باتیں۔ تاہم الزام تراشیوں کے اس نظام میں عوام پرپشان ہیں کہ سچ کس طرح تلاش کریں۔حساس اداروں پر جج صاحبان کے گھروں میں خفیہ کیمروں کی تنصیب کا الزام انتہائی تکلیف دہ ہے۔ لیکن یہاں توبعض ہوٹلوں ، گیسٹ ہا?سسز اور خواتین کیلئے ریڈی میڈ لباس فروخت کرنے والے بڑے کاروباری مراکز کے چینجنگ رومز تک سے ماضی میں خفیہ کیمرے پکڑے جاتے رہے ہیں۔ تو کیا وہاں بھی حساس ادارے ملوث تھے ؟ ججز کے گھروں میں خفیہ کیمروں کی تنصیب اگر حقیقت ہے تو اس میں جرائم پیشہ مافیہ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا۔ ملتان میں جج ارشد ملک کے علاوہ دیگر ہزاروں معزز افراد کی مبینہ خفیہ ویڈیو بنانے کے الزام میں ملوث ایک شخص کی 17جولائی 2019کو گرفتاری اس کی بڑی مثال ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو اس خط کی مکمل تحقیقات اب ہر صورت ضروری ہے تاکہ حساس اداروں پر الزامات اور اسے بطور پروپیگنڈہ استعمال کرنے کی روش کو روکا جاسکے۔