ادارہ جاتی اصلاحِ احوال کے پیدا ہوتے قوی امکانات
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کے خط پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی عدالت عظمیٰ کے وسیع تر بنچ کے روبرو سماعت کے دوران اس کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا عندیہ دیا ہے اور باور کرایا ہے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کیا جائیگا نہ کوئی دھمکی یا مداخلت برداشت کی جائیگی۔ فاضل چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت اپریل کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت انہوں نے ریمارکس دیئے کہ نظام تب چلے گا جب ہر کوئی اپنا کام کریگا۔ ججز کو یقین ہونا چاہیے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہم سب احترام کی توقع کرتے ہیں۔ ہم کوئی غلط کام کریں تو فوراً پکڑیں۔ ہم اپنا احتساب کرکے دکھا رہے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہونگے۔ ہم عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ کسی پٹیشن کے دائر ہونے سے پہلے اس کا میڈیا میں شائع ہونا بھی عدالت کو دباﺅ میں لانے کا ایک طریقہ ہے۔ معاشرے میں گند بہت پھیل چکا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدلیہ کو اپنے مقاصد کے تحت دباﺅ میں لانے کے ہتھکنڈے ہر دور میں استعمال کئے جاتے رہے ہیں اور یہ بھی عدلیہ کی تاریخ ہی کا حصہ ہے کہ مختلف ادوار میں عدلیہ ایسا دباﺅ قبول بھی کرتی رہی جبکہ عدلیہ کے بعض ارکان اپنے مقاصد کے تحت خود بھی ایسے فیصلے صادر کرتے رہے جن میں کسی ذاتی عناد‘ تعصب یا جانبداری کی واضح جھلک نظر آتی تھی۔ اس حوالے سے ایک سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے تو اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ججوں نے بھی آخر اپنی نوکری کرنی اور بچانی ہوتی ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ عدلیہ پر زیادہ دباﺅ مارشل لاءادوار میں پڑتا رہا۔ اسکی پہلی مثال فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاءکی ہے جسے اس وقت کے چیف جسٹس منیر احمد نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے آئینی تحفظ دیا۔ مارشل لاءادوار میں آئین معطل کرکے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف اٹھوایا جاتا رہا جو عدلیہ پر دباﺅڈالنے کی ہی ایک مثال ہے۔ عدالت عظمیٰ نے صرف یحییٰ خان کے ماورائے آئین اقتدار کو عاصمہ جیلانی کیس میں غیرآئینی قرار دیا تھا مگر یہ فیصلہ بھی جنرل یحییٰ خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد صادر ہوا۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکو سپریم کورٹ نے بیگم نصرت بھٹو کیس میں نظریہ ضرورت کے تحت ہی آئینی تحفظ فراہم کرکے جائز قرار دیا جبکہ اس دور میں عدلیہ اور پریس کی آزادی کا تصور ہی مفقود ہو گیا تھا۔ اسی دور میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاءکی خواہش کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے پھانسی کی سزا دی جسے سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔ اس کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ذاتی رنجش اور تعصب کا بھی عمل دخل تھا جنہوں نے ہائیکورٹ کو ٹرائل کورٹ کا درجہ دیکر بھٹو کیخلاف قتل کے مقدمہ کی اپنی سربراہی میں سماعت کی اور بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کی جنرل ضیاءکے ساتھ ساتھ اپنی خواہش کی بھی تکمیل کی۔
اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقتدار کو بھی سپریم کورٹ نے سید ظفرعلی شاہ کے کیس میں آئینی تحفظ فراہم کیا اور انہیں آئین میں ترمیم تک کا اختیار ازخود دے دیا۔ یہ تو ماورائے آئین ادوار کا معاملہ ہے جبکہ منتخب جمہوری ادوار میں بھی عدلیہ کی آزادی کی صورتحال قابل رشک نہیں رہی اور آئین و انصاف کی عملداری سے ہٹ کر جمہوری ادوار میں ایسے عدالتی فیصلے بھی صادر ہوتے رہے جن میں حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی خواہشات کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے متعلقہ ارکان کی اپنی خواہشات کی جھلک بھی نظر آتی رہی۔ اس معاملہ میں عدلیہ کی تاریخ میں پی ٹی آئی کا دور بدترین دور قرار دیا جا سکتا ہے جس کے دوران اس جماعت کے سربراہ اور عدالتی سربراہ کا ایک ہی ایجنڈا نظر آتا تھا۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں بھی عدلیہ پر دباﺅ ڈالنے کے ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہے مگر حکومتی اور عدالتی سربراہوں کے مابین حکومتی پارٹی کے سربراہ کے مخالفین کو دیوار سے لگانے کے ایجنڈے کی یکسانی پی ٹی آئی کے دور میں ہی پیدا ہوئی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض ریاستی اداروں کی جانب سے حکومتی سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت ہوتی رہی ہے جو پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں ایئرمارشل اصغر خان کے کیس میں سپریم کورٹ میں اجاگر بھی ہوئی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائے گئے خط میں بھی عدلیہ پر دباﺅ کے اسی معاملہ کو اجاگر کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بار کے پلیٹ فارم پر تقریر کرتے ہوئے یہ معاملہ اٹھایا تھا جس پر انہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس بھجوا کر برطرف کیا گیا۔ اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے انکی برطرفی کالعدم قرار دی تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے مشترکہ طور پر خط لکھ کر ان پر پڑنے والے دباﺅ کا نوٹس لینے کا کہا گیا۔ اس بارے میں جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کا یہ کہنا درست نظر آتا ہے کہ اگر ان کیخلاف کیس کے وقت انکے ساتھی ججز انکے حق میں آواز اٹھاتے تو عدلیہ کو دباﺅمیں لانے کا سلسلہ جاری نہ رہ پاتا۔
اب چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی آزادی پر کوئی مفاہمت نہ کرنے کا عزم باندھتے ہوئے اپنے ادارے میں خوداحتسابی کے عمل کا بھی آغاز کیا ہے جس کے یقیناً دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ اسی تناظر میں انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے بھجوائے مراسلہ پر پہلے فل کورٹ میٹنگ میں اس معاملہ کا جائزہ لیا اور وزیراعظم سے بھی میٹنگ کی جس میں انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا اور کمیشن کے سربراہ کیلئے جسٹس تصدیق جیلانی کا تقرر بھی ہو گیا جس پر بادی انظر میں مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تو فاضل چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر کیس کی سماعت کیلئے وسیع تر بنچ تشکیل دے دیا مگر مخصوص ایجنڈے کی بنیاد پر ہی ان سے اس کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا تقاضا شروع ہو گیا۔ اگرچہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز فل کورٹ تشکیل دینے کا بھی عندیہ دیا ہے تاہم انہوں نے خط لکھنے والے ججوں کو یہ بھی باور کرایا ہے کہ انکے پاس بطور عدالت توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لانے کے اختیارات تھے تو انہوں نے خود یہ اختیارات کیوں استعمال نہیں کئے۔ چیف جسٹس کا یہ استفسار بھی یقیناً دوررس اثرات کا حامل ہوگا جبکہ اس کیس کی سماعت کے دوران ہی کسی خاتون کے نام پر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ایک وائرس پر مبنی مواد کے ساتھ دھکی آمیز خط بھجوانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے یہ خط اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججوں کو ملا جس کے بعد یہی خط سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سمیت مزید دس ججوں کو موصول ہو چکا ہے جس کا مقصد بظاہر عدلیہ کو دباﺅ میں لا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے کیس میں مخصوص سیاسی ایجنڈہ کے مطابق فیصلہ لینا ہو سکتا ہے تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئی بھی دباو¿ قبول نہ کرنے کا دو ٹوک اعلان کر کے اس مبینہ ایجنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ یقیناً یہ معاملہ ہمارے ڈاک کے ترسیلی نظام کی بھی جانح پڑتال کا متقاضی ہے اور متعلقین کو اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں یہ پورے سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش تو نہیں جو ماضی قریب میں بھی کی جاتی رہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بہرصورت کوئی دھمکی‘ دباﺅ یا مداخلت برداشت نہ کرنے کے عزم پر کاربند ہیں۔ اس لئے اب ادارہ جاتی اصلاحِ احوال کا راستہ کھلتا نظر آرہا ہے جو یقیناً خوش آئند ہے۔