حکومت، سیاست اور مثبت سوچ
گزشتہ د وں اللہ تعالی ے اپ ے حبیب حضرت محمد ﷺ کے صدقے اپ ے در پر بلایا اور کچھ د مکہ اور مدی ہ کی پاک فضاو¿ں میں گزارے تو احساس ہی ہیں ہوا کہ د یا میں کوئی غم ہے یا پاکستا میں کیا چل رہا ہے کیوں کہ جب ب دہ ا دو مقدس مقامات پر ہوتا ہے تو پھر اس کے سام ے اللہ ہوتا ہے یا اپ ے ہاتھ ہوتے ہیں جو دعا کیلئے دراز ہوتے ہیں اور دل کرتا ہے ب دہ ہر وقت اللہ سے اپ ے گ اہوں کی معافی ما گتا رہے اور ا دو مقدس مقامات پر ہی ز دگی تمام ہو جائے۔دل تو کرتا ہے کہ ا سا وہاں ہی رہے اور د یا کے جھمیلوں سے آزاد ہو جائے لیک کسی بزرگ سے ایسے ہی کسی پاکستا ی ے پوچھا کہ دعا کریں کہ میں مکہ مدی ہ میں ہی رہوں کیوں کہ میرا دل یہاں لگتا ہے تو ا بزرگ ے کیا خوبصورت جواب دیا کہ یہ زیادہ اچھا ہیں ہے کہ تم واپس اپ ے دیس چلے جاو¿ لیک تمارا دل یہاں لگا رہے اور اگر تم اپ ے جسم کے ساتھ یہاں موجود رہے تو ہو سکتا ہے تمہارا دل پاکستا میں اٹکا رہے اس لئے دعا کروکہ جہاں بھی رہو لیک دل مکہ مدی ہ میں لگا رہے۔ا دو وں شہروں میں گزارے گئے یہ د ز دگی کے بڑے ہی قیمتی د ہیں ج کی یاد تا عمر ساتھ رہے گی۔ سعودی حکومت کی جا ب سے عمرہ زائری کیلئے بڑے احس ا داز میں وہاں ا تظامات کئے گئے اور زائری کیلئے جا بجا سہولتوں مہیا کی گئیں ہیں،روزہ داروں کیلئے افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں امیر غریب سب ایک ساتھ شریک ہوتے ہیں اور وہاں دیکھا گیا کہ لوگ پکڑ پکڑ کر لوگوں کو دستر خوا پر بٹھا رہے ہوتے ہیں تاکہ یہ سعادت والے لمحے یکیوں کی برسات میں گزار کر اپ ے لئے رب کی رضا حاصل کر سکیں۔
اس دورا پاکستا میں بھی سیاسی وہ سماجی حالات بڑے تبدیل ہوئے ہیں ئی حکومت قائم ہو گئی ہے اور شہباز شریف کو پر س محمد ب سلما ے باقاعدہ فو کر کے وزیراعظم کا م صب س بھال ے پر مبارکباد دی ہے۔
ماضی قریب میں دو وں برادر اسلامی ممالک کے یہ تعلقات کچھ ا عاقب ا دیش فیصلوں کی وجہ سے اتار چڑھاو¿ کا شکار رہے لیک شریف فیملی کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی ایک وسیع تاریخ ہے اس لئے کہا جا رہا ہے کہ دوبارہ سے ازسر و بحال ہو ے والے یہ تعلقات پروا چڑھیں گے اور پاکستا میں اس کیلئے مثبت پہلو پیدا ہوں گے۔اسی طرح پ جاب میں بزدار کی صورت میں جو زیادتی کی گئی اب امید کی جاتی ہے کہ مریم واز ا سے بہتر م ظم ثابت ہوں گی اور وہ پاکستا کے کسی بھی صوبے میں وزارت اعلی تک پہ چ ے والی پہلی خاتو سیاست دا ہیں۔مریم واز سے قبل ا کے والد، ا کے چچا اور ا کے چچا زاد بھائی بھی اس م صب پر رہ چکے ہیں اور لوگ ا کے چچا اور ا کے والد کے دور کی مثالیں دیتے ہیں تو مریم واز کیلئے کیلئے اپ ے باپ اور چچا کی طرح کام کر ا اور اس معیار کو برقرار رکھ ا ایک چیل ج ہو گا۔بدقسمتی سے پاکستا کی جمہوریت میں کبھی ہیں ہوا کہ کوئی حکومت قائم ہوئی ہو اور تو حکومت کے مخالفی ے اسے خوش اسلوبی سے قبول کیا ہو ئی حکومت کے قیام کے دورا جس طرح دھا دلی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ویسے کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستا کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر گالم گلوچ اور ایک دوسری کی راہ میں روڑے اٹکا ے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ تعاو کریں آئی کو مقدم ما یں، پاکستا کی ترقی کیلئے مل جل کر کام کریں تا کہ پاکستا پر چھائے غربت کے سائے کم ہو سکیں اور پاکستا ی شہری ایک بہتر معیار ز دگی کی جا ب سفر شروع کر سکیں۔ کیوں کہ آپس کی لڑائیوں میں اس ملک کا پہلے ہی بہت قصا ہو چکا ہے، ا آپسی لڑائیوں کی وجہ سے ہی دہشت گرد فعال ہو رہے ہیں۔سیاست دا مل کر جمہوری طریقے سے کام کریں گے تو ملک کا مثبت تشخص مایاں ہو گا۔لیک بد قسمتی سے جو سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے وہ اپ ے سوا کسی کو محب وط ہیں سمجھتی اور جو اپوزیش میں ہوتے ہیں وہ دوسروں کو چور سمجھتے ہیں لیک جوں ہی دو وں کی پوزیش بدلتی ہے تو بیا ات بھی بدل جاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستا کی ترقی کیلئے، جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ایک دوسرے سے تعاو کریں۔حکومتوں کی تبدیلی کا عمل آءی طریقے سے ہو جس میں رخ ے ہ ڈالے جائیں اور ہ ہی سیاسی جھگڑے یا سیاسی ت ازع عدالتوں میں پہ چے بلکہ پارلیم ٹ میں ا ہیں خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے تو اس سے سیاست دا وں کی بھی شبیہ بھی عوام میں بہتر ہو گی اور لوگوں کا بھی سیاسی عمل اور سیاسی اداروں پر اعتماد بڑھے گا۔گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا خاتمہ کر ا ہو گا کیوں یہ چیز عوام میں مایوسی پھیلاتی ہے اور جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے بھی یہ عمل ایک زہر کی ما د ہے۔ م فیت چو کہ ایک زہر قاتل ہے اس عمل کا شکار چاہے وہ کوئی شخص ہو یا سیاسی پارٹی وہ اپ ے علاوہ دوسروں کو دشم سمجھتے ہیں اور یہ بات طے شدہ ہے جو لوگ م فیت کا شکار ہوں وہ دوسروں کیلئے تو کجا اپ ے لئے بھی بہتری ہیں لا سکتے۔اس لئے الزام تراشیوں سے پرہیز کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سمیت قومی اداروں جس میں پارلیم ٹ، عدلیہ مق ہ سب ہی شامل ہیں ا تمام کو مثبت عمل کی جا ب بڑھتے ہوئے ملک کی ترقی کا سوچ ا ہو گا تب ہی جا کر عام آدمی خوشحال ہو گا۔