• news

بھٹوخاندان کی ”بلامقابلہ “روایت

یہ 1976ءکے آخری مہینوں کی بات ہے جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں قبل از وقت قومی انتخابات کا اعلان کردیا۔ان کے دورحکومت میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کودیوار سے لگاکر رکھاگیا،پورے دورمیں دفعہ144پورے ملک میں نافذرہی مگر قومی انتخابات کاتقاضاتھاکہ دفعہ 144 سمیت تمام کالے قوانین کو عارضی طورپر معطل کردیاجائے۔اس لئے جونہی اپوزیشن کو موقع ملاوہ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کے خلاف"پاکستان قومی اتحاد"کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوگئے۔ بھٹو حکومت نے شروع میں اسے سنجیدہ نہ لیااور حسب معمول اس کے راہنماو¿ں کامذاق ہی اڑاتے رہے۔ادھر "قومی اتحاد"نے اپنا بیانیہ یہ بنایا کہ ذوالفقار علی بھٹو انتخابات میں دھاندلی کریں گے۔اس کے علاوہ لوگوں کو جوش دلانے کے لئے "نظام مصطفے"کے نفاذکو جلسوں میں خوب اجاگر کیا گیا۔دونوں بیانیئے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔یہاں تک کہ مارچ1977ءکامہینہ آگیاجس میں انتخابات ہوناتھے۔
انتخابات سے چند یوم قبل لاڑکانہ سے ذوالفقارعلی بھٹو" بلامقابلہ"منتخب ہوگئے۔انکے مقابلے میں جماعت اسلامی کے امیدوارجان محمد عباسی کو اغواءکرانے کا کارنامہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنرلاڑکانہ خالدخاں کھرل نے سرانجام دیاجو ریٹائرمنٹ کے بعدپیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی بنائے گئے۔ان کی دیکھادیکھی سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفے جتوئی،پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی،صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ نصر اللہ خٹک اور بلوچستان کے جوکوئی بھی وزیراعلیٰ تھے سب کے سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور "بلامقابلہ" منتخب ہوگئے۔ان کی دیکھادیکھی لاہور سے مولانا عبید اللہ انورکے مقابلے میں ملک اختر وزیر قانون کے علاوہ چوبیس ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوگئے اوران سب نے مل کر "پاکستان قومی اتحاد" کے اسکے موقف کو سچ ثابت کیا کہ "ذوالفقارعلی بھٹو انتخابات میں دھاندلی کریں گے۔"اتحاد" کے جو چندلوگ منتخب ہوئے جیسے گوجرانوالہ سے غلام دستگیر خاں،فیصل آباد سے میاں زاہد سرفراز،ملتان سے مولانا کاظمی وغیرہ،ان سب نے استفعے دے دیئے اورصوبائی اسمبیلوں کے امیدواران نے بھی انتخابات کابائیکاٹ کردیا۔ اگلے دن ہی بھٹو کے خلاف تحریک کاآغاز ہوگیا۔ ایوب خاں سے لے کرپرویز مشرف تک جتنی بھی تحریکیں چلیں میں نے اس سے زیادہ ہنگامہ خیزاورطوفانی تحریک نہیں دیکھی حتیٰ کہ ختم نبوت کی بھی۔اس تحریک کے نتیجے میں بالآخر5جولائی 1977ءکوریڈیو اورTVکے ذریعے افواج کے کمانڈر جنرل ضیاءالحق کایہ خطاب سننے ملا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی ہے اورانہیں حفاظتی تحویل میں لے لیاگیاہے۔ 
 اس کے ساتھ ساتھ"پاکستان قومی اتحاد"کے تمام راہنماو¿ں کو بھی حراست میں لے لیاگیا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے "بلامقابلہ"منتخب ہونے کے جنون سے پاکستان میں آمروں کی سیاہ رات کا آغاز ہواجس کی منحوس سیاہی نے گیارہ سال تک ملک کو روشنی سے محروم رکھا۔چلتے چلتے بھٹو دورمیں گوجرانوالہ سے "بلامقابلہ" منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی علی محمددھاریوال کا واقعہ بھی سن لیں۔یہ ایک ضمنی الیکشن تھاجس میں پیپلز پارٹی نے دھاریوال صاحب کو پارٹی ٹکٹ دیا۔اس بات کا خاص اہتمام کیاگیاکہ شہر بھر سے کوئی آدمی ان کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی پیش نہ کرسکے۔اب کی بارخالد خاں کھرل کاکردار چوہدری اختر سعیدنے اداکیا۔جس روز کاغذات نامزدگی پیش کئے جانے تھے،پوری کچہری میں پولیس پھیلادی گئی۔حال ہی میں رخصت ہونے والی نگران حکومت کی طرح تب بھی ریٹرنگ افسر انتظامیہ سے لئے گئے تھے۔حکومتوں کو اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ سرکاری افسرحکمرانوں کامزاج دیکھ کرہی اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔سویہاں بھی ایسا ہی ہوااورحکومتی گماشتوں نے کسی کو ڈپٹی کمشنر/ریٹرینگ افسرکے دفترتک نہ جانے دیا۔تحریک استقلال گوجرانوالہ کے سیکرٹری چوہدری سیف اللہ بٹر کوکچہری کی راہداریوں سے ہی اچک لیاگیا۔ہمارے دوست اکرم چوہان کو بھی برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔شام ڈھلی اوررات کی سیاہی کاراج ہوا تو علی محمد دھاریوال کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر نے یہ وضاحت کردی کہ چونکہ انکے مقابلے میں کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے لہذا دھاریوال صاحب "بلامقابلہ" کامیاب ہوگئے ہیں۔اب 47سال گذرنے کے بعدایک بارپھرپیپلز پارٹی نے اپنی "تابندہ روایات"کوزندہ رکھاجب سندھ سے آصفہ بھٹو "بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی بن گئیں کیونکہ ریٹرنگ افسرکے مطابق کسی نے ان کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے"بلامقابلہ"منتخب ہونے کاجنون پیپلز پارٹی کولے ڈوبا۔ سیاسی جماعتیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ اپنے غلط فیصلوں کامحاکمہ کرتی ہیں تاکہ اپنے حال اورمستقبل کو ملک کی بہتری اور ترقی کیلئے استعمال کیاجاسکے۔ آئین شکنی کو اپنامعمول بنانے کی بجائے آئین پر عمل کو یقینی بناتی ہیں۔پیپلز پارٹی کا جو سیاسی سفر"بلامقابلہ"کے جنون میں 77ءسے آئین شکنی سے شروع ہوا،آج 2024ء میں بھی یہ پارٹی اسی جنون میں مبتلاہے۔

سلیمان کھوکھر-----چہرے

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر-دی نیشن