ہفتہ‘ 26 رمضان المبارک 1445ھ ‘ 6 اپریل 2024ئ
موجودہ حالات میں میری خاموشی زیادہ اہم ہے، شیخ رشید۔
یہ اپنے شیخ جی نے کہا ہے۔ فرزند پنڈی ہیں اور لال حویلی کے خود کو سکہ بند مالک کہتے ہیں۔ جسے پی ڈی ایم حکومت ماننے پر تیار نہیں تھی۔ جب تک پی ڈی ایم حکومت رہی شیخ رشید زیر عتاب رہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے بعد نگران حکومت آئی تو شیخ صاحب کو ریلیف ملنے کا امکان تھا مگر نگران دور میں بے حساب زیر عتاب آ گئے۔ لال حویلی کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا نظر آیا۔چلّے میں کچھ کسر رہ گئی تھی تو اکیس بائیس روزہ مزید لگوایا گیا۔ شیخ صاحب خاموشی اختیار کر لیں تو گویا تاریخ خاموش ہو گئی اور آج واقعی ایسا ہی ہے۔ شیخ صاحب کئی ہفتوں سے خاموش ہیں۔ اب فرمایا ہے موجودہ حالات میں میری خاموشی بہتر ہے۔ کس کے لیے بہتر ہے؟ پاکستان کے لئے بہتر ہے؟ جمہوریت کے لئے بہتر ہے۔ امریکہ و برطانیہ کے لئے بہتر ہے یا اقوام عالم اور او آئی سی کے لئے بہتر ہے؟ لگتا ہے خاموشی خود ان کے اپنے لئے بہتر ہے۔
شیخ چلہ شریف جب بھی اٹھائے گئے ،پھڑے گئے اور دھرے گئے اپنی ”زباں باری“ کی وجہ سے ہی، اب بھی وہ بولتے ہیں، مگر ایسے جیسے بولتی بند ہو۔عدالتوں میں پیشی کے موقع پر صحافیوں کے اکساوے پر بولتے ہیں بس اتنا بولتے ہیں۔ ”اب نہیں بولوں گا۔“ یہ پالیسی شیخ صاحب نے پہلے اپنائی ہوتی تو آج وہ بھی فارم 47 کی چھتری تلے دھمالیں ڈال رہے ہوتے۔ بہرحال خاموشی کئی بلاﺅں سے بچاتی ہے جیسے شیخ صاحب نے اب چپ سادھی ہے تو چلّوں سے محفوظ ہیں۔
٭٭٭٭٭
دھرنا دیں گے، دیکھتے ہیں کو ن لاٹھیاں برساتا ہے، شیر افضل مروت۔
صرف یہ دیکھنے کے لئے دھرنا دینا کہ لاٹھیاں کون برساتا ہے اگر دانش مندی ہے تو شیر افضل مروت پی ٹی آئی کا دانشورانہ فیس ہیں۔ مروت صاحب کھڑاک پسند طبیعت کے مالک واقع ہوئے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں لگتا لٹھ اٹھائی ہوئی ہے۔ ڈانگ کندھے پر رکھی ہے۔ دو چار لوگوں کو دیکھ کر گھما دیتے ہیں۔ حریف اور مخالف مل جائیں تو کیا کہنے نہ ملیں تو ساتھیوں پر ہی لاٹھی چارج شروع کر دیتے ہیں۔ کل ہی کور کمیٹی کے اجلاس میں برس پڑے کہ خان صاحب نے ان کوفوکل پرسن کے عہدے ہٹا دیا۔یہ ساتھ عمیر نیازی کو بھی لے ڈوبے۔ حکومت جلسے کی اجازت نہیں دیتی پارٹی مان لیتی ہے یہ کہتے ہیں میں کیوں مانوں؟ جلسہ ہو گا، جلوس نکلے گا دھرنا دیں گے دیکھتے ہیں کون لاٹھیاں برساتا ہے۔ گنڈاپور کہتے ہیں خصوصی نشستوں پر حلف نہیں ہونے دونگا۔ مروت نے کھل کر گنڈاپور کی تائید کر دی۔ توہین عدالت گنڈا پور پر لگے گی۔ شیر افضل مروت دیکھیں گے کنٹمپٹ کون لگاتا ہے۔ایک بیان تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی سے مائیگریٹ کر کے آنے والے رہنما بابر اعوان نے دیا ہے کہ فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ 8 فروری کے انتخابات کو کیا ہو گیا۔ ان کو کیا سانپ سونگھ گیا؟ ان کو پولیو ہو گیا؟ ڈیڑھ پونے دو ماہ میں پرانے ہو گئے؟ اتنے پرانے ہو گئے کہ ان سے "توس" آنے لگی ہے؟اب مہکتے ہوئے فریش کرانے کی ضرورت پڑ گئی۔ آپ تو دوتہائی اکثریت کے دعوے دار تھے۔ اس سے کیا دستبردار ہو گئے۔ یا پھر نئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے اعلان کا مطالبہ کر رہے ہیں؟
٭٭٭٭٭
عید پر مرکزی حکومت نے 3 اور 4 چھٹیوں کا اعلان کر دیا۔
عید کب ہو گی؟ اس کا فیصلہ چاند دیکھنے کے بعد ہو گا مگر بدھ کو عید کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ مرکزی حکومت نے چھٹیوں کی کیٹگری بنا کر اعلان کر دیا ہے۔ کچھ ملازمین کو 4 اور کچھ کو تین چھٹیاں دی گئی ہیں مگر چھٹیوں کا آغاز ایک ہی دن بدھ سے ہو گا۔ طے کر لیا گیا ہے کہ عید بدھ کو ہو گی، کیونکہ پاکستان کے موسمیاتی سائنسدانوں نے مکمل حساب کتاب لگا کر یقین ظاہر کیا ہے کہ منگل 9 اپریل کو مکمل ہوکر چاند نظر آ جائے گا۔ رویت ہلال کمیٹی بھی اتمام حجت کے لئے چاند دیکھنے کے لئے بیٹھے گی، اجلاس ہو گا اور اعلان کر دیا جائیگا۔ مرکزی حکومت نے ان ملازمین کو 3 چھٹیاں دی ہیں جو بجلی کی بچت کے لئے ہفتے میں دو چھٹیاں کرتے ہیں یعنی ہفتے میں 5 دن کام کرتے ہیں جبکہ ہفتے میں 6 دن کام اور ایک دن چھٹی کرنیوالوں کو ایک اضافی چھٹی دی گئی ہے۔ یہ 10 اپریل سے 13 اپریل تک عید کی چھٹیاں انجوائے کریں گے۔ ایک اور کیٹگری بھی بن سکتی تھی۔ وہ ورک فرام ہوم والوں کی ہے۔ اس کیٹگری میں آنے والوں کو شاید ایک بھی چھٹی نہ ملتی کیوں کہ وہ گھر سے کام کرتے ہیں اور اسے چھٹیاں ہی تصور کر لیا جاتا ہے۔ اب ان لوگوں کے لئے تھوڑی سی پریشانی ہو سکتی ہے۔ جو دو بھائی ہیں۔ کراچی میں مرکزی حکومت کے ملازم ہیں۔ ان کا گھر سکردو میں ہے۔ ایک بھائی کو تین دوسرے کو چار چھٹیاں ملی ہیں۔ وہ کیا کریں۔ کیا ایک بھائی دوسرے کو اپنی چھٹیاں ٹرانسفر کر سکتا ہے؟ صوبائی حکومتوں تک مرکزی حکومت کا چھٹیوں کی کیٹگرائزیشن کا فلسفہ، فارمولا پہنچا ہے یا نہیں؟
انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلرنے تنگ آ کر اپنا نام تبدیل کر لیا۔
جوز بٹلر کو شکوہ تھا کہ ان کو جوز بٹلر کے بجائے جوش بٹلر کہا جاتا ہے۔ ان کا شکوہ غصے میں بدلا تو انہوں نے اپنا نام جوز بٹلر سے بدل کر وہی رکھ لیا جس کو وہ پ±ٹھا نام کہتے تھے۔ اب وہ باقاعدہ جوش بٹلر بن گئے ہیں۔ ویسے جوش ہٹلر بھی بن سکتے تھے۔ جوش ہو سکتا ہے کل واقعی جوش میں آ کر اپنا نام پھر بدل لیں۔ ویسے ان کو جوش نام اپنے لئے پسند آیا، ہمیں تو جوش ملیح آبادی کی یاد اور ان کی ”یادوں کی بارات“ بھی یاد آ جاتی ہے۔ لوگ عموماً کہتے ہیں نام میں کیا رکھا ہے۔ یہ کہنے کی حد تک ہے ویسے نام اور ناموں میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ کچھ تو بدنام ہونے کو بھی نام سمجھتے ہیں ۔
”بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا۔“ترکی کے حکمرانوں نے اپنے ملک کا نام ترکی سے ترکیہ رکھ لیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تسمیہ ٹرکی جانور بھی ہے۔ انگلش جیسی زبانوں میں ترکی کو ٹرکی کہا جاتا تھا۔ اب ترکیہ ہونے سے ٹرکی یعنی پرندے سے مماثلت ختم ہو گئی۔ تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت اپنے قومی نشانات منتخب کر رہے تھے۔ بھارت نے گریٹ انڈین بسٹرڈ(بھکر) کو اپنا قومی پرندہ قرار دینے کی تجویز دی۔ پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اس تجویز سے بدک گئے۔ انہوں نے تجویز کنندگان کو پاکستانیوں سے خطرات سے آگاہ کیا کہ وہ بسٹرڈ کو باسٹرڈ کہہ کر مذاق اڑایا کریں گے۔ ان دنوں گریٹ انڈین بسٹرڈ کافی تعداد میں موجود تھے۔ یہ تلور کی نسل کابھاری بھرکم پرندہ ہے جس کی نسل اب ناپید ہوتے ہوئے 200 تک محدود ہو گئی ہے۔ان میں سے کچھ بھکر چولستان میں بھی آ جاتے پاکستان میں تلور کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہوبارہ فاو¿نڈیشن انٹرنیشنل بھکر کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بات نام کی تبدیلی سے شروع ہوئی، علم الاعداد والے ناموں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور وہ آخری عمر میں پہنچنے والے خواتین و حضرات کے نام بھی خیر و برکت کے لئے تبدیل کرا دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭