آئی ایم ایف کی متوقع کڑی شرائط اور عوام کی حالت زار
وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی معیشت ٹھیک کرنے میں ایس آئی ایف سی کا ایک کلیدی کردار ہے‘مہنگائی کم ہو رہی ہے۔ ہمیں مہنگائی، بیروزگاری میں کمی لانے کیلئے دن رات کاوشیں کرنی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا 1.1 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی ایگریمنٹ اس مہینے بورڈ کی منظوری کے بعد مل جائےگا۔ وزیر خزانہ واشنگٹن جارہے ہیں وہاں آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کے حوالے سے اجلاس ہوگا۔ شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام ہمارے لیے ضروری ہے، اس سے معیشت میں استحکام آئےگا اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہم ایک نئے اعتماد کے ساتھ کام کرسکیں گے۔ اس نئے معاہدے میں آئی ایم ایف کی شرائط آسان نہیں ہوں گی مگر ہماری سوچ یہ ہونی چاہیے کہ غریب طبقے پر بوجھ کم پڑے اور ان پر اس کا دباﺅ ڈالا جائے جو اسے اٹھا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت اقتصادی لحاظ سے ملک بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے ہی پاکستان کو آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے جو پاکستان کی سنگین ہوتی اقتصادی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے مزید اپنی کڑی شرائط میں جکڑنے کیلئے شکنجہ تیار کئے بیٹھے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ادوار سے اب تک جو قرضے لئے گئے‘ معیشت کی بحالی تو درکنار‘ ان کا عشر عشیر بھی عوام کی حالت بدلنے پر خرچ نہیں کیا گیا۔ وہ قرض کہاں خرچ کیا گیا‘ اس کا چیک اینڈ بیلنس کہیں نظر نہیں آتا۔رواں ماہ کے آخری ہفتے میں آئی ایم ایف بورڈ کے ساتھ میٹنگ متوقع ہے جس کیلئے وزیراعظم شہبازشریف قوم کو پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کی شرائط آسان نہیں ہونگی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں مزید پیسنے کا اہتمام کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ حکومت کو عوام کی طرف سے سخت ردعمل کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ وزیراعظم کے بقول مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے جبکہ گزشتہ دنوں ورلڈ بینک کی رپورٹ پر بلوم برگ نے بھی اپنی تجزیاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 22 ماہ میں مہنگائی کی شرح پہلی بار سب سے کم 20.7 فیصد کی شرح پر آگئی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ عوام کو مہنگائی میں اس کمی کے ثمرات نظر نہیں آرہے۔ ماہ رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے‘ حکومتی دعوﺅں کے باوجود کسی رمضان بازار یا رمضان پیکیج کے تحت عوام کو ریلیف نہیں مل سکا جو حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ بہتر ہے کہ 1.1 ارب ڈالر کا ملنے والا یہ قرض اب مہنگائی کے خاتمے‘ معیشت کی بحالی اور عوامی بہبود پر استعمال کیا جائے تاکہ عوام کو سکھ کا سانس مل سکے۔ اب عوام کے بجائے اشرافیہ طبقات کو قربانی کیلئے آمادہ کیا جانا چاہیے جس کا اظہار وزیراعظم اپنے گزشتہ روز کے بیان میں کر چکے ہیں۔