کچھ احوال گوجرانوالہ کا
کوئی پر مزاح شعر ہو یا کوئی پھڑکتا سا لطیفہ، اسے نچوڑیں تو ایک سنجیدہ سی سچائی ٹپک پڑتی ہے۔ امام دین گجراتی کے اس شعر پر غور کریں:
اگر سیٹ جنت میں خالی نہیں ہے
تو جلدی سے دوزخ میں وڑ مام دینا
یہ وڑنا شیر افضل مروت والا وڑنا نہیں ہے۔ وہ اس لفظ کو تباہی و بربادی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ امام دین کے وڑنے کا مطلب ہر گز تباہی و بربادی نہیں۔ وہ اسے انگریزی زبان کے لفظ ایڈجسٹمنٹ کے طور پر لیتے ہیں۔ ان کی ہدایت ہے کہ کہیں نہ کہیں جگہ بنا لو، جنت نہ سہی دوزخ ہی سہی۔ یہ وہی ایڈجسٹمنٹ ہے جس کے تحت ن لیگ، آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بجائے ایوان صدر بھجوانے پر مجبور ہوئی۔ پھر یہ وہی ایڈجسٹمنٹ ہے جس کے تحت کامونکی سے آخری لمحوں میں ذو الفقار علی بھنڈر تحریک انصاف چھوڑ کر ن لیگ کا ٹکٹ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ تحریک انصاف نے ان پر اپنی جماعت میں نووارد رانا نذیر احمد خاں کو ترجیح دے کر اپنا ٹکٹ انکے حوالے کر دیا۔ پھر تو اس ن لیگی ’’فیاضی‘‘سے رانا نذیر احمد خاں رنڈوے سے ہو کر رہ گئے۔ اک زمانہ تک یہ میاں نواز شریف کے پنج پیاروں میں شامل رہے۔ بھلا گردش فلک کی چین لینے دیتی ہے کسے، ان دنوں ن لیگی حکومت میں خود میاں نواز شریف ہی سیاست کو پیارے ہوئے لگتے ہیں۔ کامونکی سے ممبر قومی اسمبلی چوہدری احسان ورک اپنی شرافت، لگن اور استقلال سے اپنی سیاسی منزل پانے میں کامیاب ہو گئے۔
ان دنوں مدثر ناہرا نوشہرہ ورکاں کا دوسرانام ہے۔ طاقتورمدثر ناہرا کی شائستگی کا یہ عالم ہے کہ وہ چوہدری صاحب کی بجائے حاجی صاحب کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ یہ طالب علم سیاست سے ملکی سیاست میں آئے۔ ناقابل شکست ناہرا فیملی بھی اس مرتبہ ’’عمرانی سونامی‘‘ کا شکار ہو گئی۔ مالی وسائل، افرادی قوت اور سرکار دربار میں اثر رسوخ، پوچھ گچھ ہی ہمارے ہاں طاقت کے ذرائع ہیں۔ انہوں نے دوبارہ گنتی سے ایک مرتبہ اپنی سرکار دربار میں بے پایاں قوت ضرور ثابت کر دی لیکن اللہ کے ہاں شاید ابھی انکے برے دن لکھے ہوئے ہیں۔
وزیر آباد میں چٹھہ خاندان کے اقتدار کی کہانی حامد ناصر چٹھہ کے دادا نصیر الدین چٹھہ کے 1937ء میں ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں پہنچنے سے شروع ہوتی ہے۔ 1946ء اور 1962ء میں انکے والد صلاح الدین چٹھہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ چٹھہ چیف حامد ناصر چٹھہ 70 اور77 ء میں دونوں مرتبہ پیپلز پارٹی سے ہارے۔ پھر1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں جیتے۔ 90ء میں میاں نواز شریف کے کیمپ سے کامیاب ہوئے۔ 2002ء کے الیکشن میں ایک صوبائی سیٹ سے ضرور جیتے لیکن وہ دوسری سیٹ سے ہارنا نہ بھولے۔ وزیر آباد کے مسلم لیگی مزاج کا اندازہ لگائیں کہ 1970ء کے سیلاب میں بھی یہاں سے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ سے ایک سیٹ گنوائی تھی۔ چناب کے پار سیاست کا مزاج بدل جاتا ہے۔ پھر سیاست میں سے اسلحہ بارود کی بو آنے لگتی ہے۔ وزیر آباد کے دونوں بڑے سیاسی گھرانے شریف مزاج ہیں۔ یہ گلیوں بازاروں میں گن مینوں کے بغیر دکھائی دیتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن سے چٹھہ خاندان کی طرف سے محمد احمد چٹھہ امیدوار چلے آرہے ہیں۔ پہلی مرتبہ محمد احمد چٹھہ قومی اور صوبائی دونوں سیٹوں سے جیتے ہیں۔ چیمہ خاندان ایک لمبی اننگ کے بعد پہلی مرتبہ الیکشن ہارا ہے۔ ایماندار، با اصول حامد ناصر چٹھہ سے لوگوں کو صرف کم آمیزی کا گلہ رہا۔ محمد احمد چٹھہ کی خوئے دلنوازی نے لوگوں کا یہ شکوہ بھی دور کر دیا ہے۔
ن لیگی شہر گوجرانوالہ میں خرم دستگیرخاں کی شکست بہت بڑا اپ سیٹ تھا۔ شکست کا مارجن اتنا زیادہ تھا کہ معجزے دکھانے والے مسیحا بھی بے بس دکھائی دیئے۔انہیں شکست ایک غیر معروف نوجوان صنعتکار کے ہاتھوں ہوئی جسے حلقہ میں کوئی جانتا پہچانا تک نہیں تھا۔ لوگوں نے اسے صرف عمران خان کے نام پر ووٹ ڈال دیئے۔ 8فروری کے بعد گوجرانوالہ شہر میں ایک عجیب منظر نامہ دیکھنے میں آیا۔ گوجرانوالہ شہر کی سڑکیں اور بازار مبارکباد کے جہازی ساز فلیکسوں سے بھر گئے۔ ان فلیکسوں پر دو بڑی بڑی تصاویر تھیں۔ ایک نو منتخب ایم این اے کی دوسری اپنے تئیں ان کے دوست مربی، سرپرست اور ان کی پوری انتخابی مہم چلانے والے کی۔ ان فلیکسوں کے مطابق شہری دونوں کو خرم دستگیر کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کی مبارکباد دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن حیران پریشان تھے کیونکہ ان صاحب کا خاندانی پس منظر ن لیگی بتایا جار ہا تھا۔ اس تہنیت، مبارک اور شکریے میں عمران خان کا نام سرے سے ہی غائب تھا۔ یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ جیسے اس کامیابی میں عمران خان اور تحریک انصاف کا کوئی عمل دخل ہی نہ ہو۔ عام آدمی سڑک چھاپ یا پھر کامن مین جیسی مخلوق یہ سب تماشا دیکھتے ہوئے بھی چپ رہی۔ اب یہ اپنی رائے کے اظہار کیلئے 8فروری جیسے کسی مناسب گھڑی کے انتظار میں رہتے ہیں۔ کیا یہ صاحب محمد مبین عارف جٹ کو ن لیگ میں لیجانے کے چکر میں نہیں تھے؟ یہ سوال دیر تک لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتا رہا۔ اس سلسلے میں واقعی بہت کوشش کی گئی۔ اللہ نے محمد مبین عارف کو استقامت بخشی، اس نے ووٹروں کی رائے کا احترام کیا اور اپنی جماعت کا وفادار رہا۔ ان صاحب کا پول پچھلے دنوں کھلا۔ وہ ان دنوں ن لیگی حکومت کی ایک صوبائی وزارت میں ایک چھوٹا موٹا اعزازی غیر اہم سا عہدہ لے کر اس کی تشہیر میں جْتے ہوئے ہیں۔اسی طرح شہر کے کوچہ و بازار مبارکبادکی فلیکسوں سے بھرے پڑے ہیں۔ گویا شہر بھر سے لوگ انہیں اس غیر اہم سے عہدے کی مبارک دے رہے ہیں۔ یہ صاحب یقینا محمد مبین عارف جٹ کی ن لیگ میں شمولیت کے عوض کسی بڑے سرکاری یا جماعتی عہدے کے خواہشمند تھے، اب اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔ پچھلے ہی دنوں ٹیپو ٹرکاں والا فیملی سے نوجوان امیر بلاج ٹیپو اپنے یار احسن شاہ کی ’’دوستی‘‘کی بھینٹ چڑھ گیا۔محمد مبین عارف جٹ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ وہ اپنے ان’’مہربان‘‘کے ہاتھوں سیاسی موت مرنے سے بچ نکلے ہیں۔