مجید نظامی : نظریہ پاکستان کا محافظ
ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنے والے مردِ مجاہد اور امامِ صحافت مجید نظامی کو اس دارفانی سے کوچ کئے دس سال بیت چکے ہیں،میرے پاس وہ لفظ نہیں ہیں جنہیں لکھ کے میں امام صحافت کو خراج پیش کر سکوں لیکن لیلۃ القدر کی بابرکت رات میں خالق حقیقی کے پاس چلے جانے والے نظامی صاحب نے بیداری اْمت اور ملک سے محبت کا جس طرح حق ادا کیا وہ آنے والوں کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ ہزار مہینوں سے بہتر بیان کی جانے والی مقدس رات میں نظامی صاحب کی رحلت قدرت کی طرف سے ایک طرح کی گواہی بھی ہے۔
مجید نظامی صاحب نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں اور اصولوں کے مطابق فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے وقف کیے رکھا۔ملک کی بہتری کے لیے انہوں نے کبھی بھی اپنے ذاتی نفع نقصان کی پرواہ نہ کی۔آپ کبھی جرنیلوں کو للکارتے تو کبھی سول کپڑوں میں پارٹی قائدین کی آمریت پہ انہیں جھنجھوڑتے۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے ہمیشہ اپنا سب کچھ قربان کرنے پہ تیار رہتے۔ آپ پاکستان، نظریہ پاکستان اور ملک کی سالمیت کیخلاف کسی بھی طرح کی کوئی بات برداشت نہ کیاکرتے تھے۔آپ نے مسئلہ کشمیر و فلسطین کے حل کے لیے ہمیشہ آواز بلند کی اور یہ سعادت بھی آپ کے حصے میں آئی کہ ملکی آبی ضروریات کے خطرے کو بھانپتے ہوئے آپ نے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر قومی ریفرنڈم بھی کروادیا۔تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو امام صحافت کی زندگی ملک و ملت کے لیے دردمندی اورفکر مندی میں گزرتی آتی ہے۔آپ کبھی ملک کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی و قومی سلامتی کے معاملہ میں حکمرانوں کے فیصلوں میں کمزوری دیکھتے تو ببانگ دہل انہیں للکارتے اورملک کی خاطر ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرتے۔ جب ایک طرف بھارت ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد پاکستان کو سخت لفظوں میں ڈرانے کی کوشش کررہا تھا اور دوسری طرف پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف جوابی ایٹمی دھماکوں کا حکم جاری کرنے سے پہلے امریکہ و مغرب اور دوسری عالمی طاقتوں کے رد ِ عمل کو لے کر ہچکچاہٹ کا شکار تھے ایسے میں جناب مجید نظامی صاحب نے میاں نواز شریف کو للکارتے ہوئے کہا تھا میاں صاحب!بھارتی دھماکوں کے جواب میں آپ بھی جلد ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘ میں آپکا دھماکہ کردوں گا۔
جابر سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کلمہ ء حق کہنے کا رویہ آپ نے جنرل ایوب کی آمریت میں پوری شدت سے اختیار کیا۔پہلے آپ ایوب خان کے خلاف قلم سے جہاد کا علم بلند کیے رہے اور پھر آپ نے یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی چیلنج کیا۔کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا شمار آپ کے دوستوں میں ہوتا تھا لیکن جب بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ دے کر ملک میں سول آمریت مسلط کی تو جناب مجید نظامی نے انہیں بھی نہیں بخشا۔
جنرل ضیاء الحق نے غیر آئینی طریقے سے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کے مارشل لاء نافذ کیا تو نوائے وقت کے صفحات پر جناب مجید نظامی اس مارشل لائی اقتدار کیخلاف انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے۔ ایک بار ضیاء الحق نے انہیں اپنے ہمراہ بھارت لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو جناب مجید نظامی نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ ٹینک پر چڑھ کر بھارت جائیں تو میں تیار ہوں۔
جناب مجید نظامی مشرف کی جرنیلی آمریت کیخلاف بھی پوری ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انکی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو بھی کبھی خاطر میں نہ لائے۔ جنرل مشرف نے امریکی نائن الیون کے بعد اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کے بعد اخباری مدیران کو مشاورت کیلئے بلایا اور جناب مجید نظامی کے ایک سخت سوال پر ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ میری جگہ پر ہوتے تو کیا کرتے جس پر جناب مجید نظامی نے انہیں بلاتوقف جواب دیا کہ میں آپکی جگہ پر کیوں ہوتا؟ اور آپ بھی اس جگہ پر کیوں ہیں؟۔آپ نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ اصل خرابی ہی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی کے دل میں اپنی اصل جگہ چھوڑ کر پرتعیش اور اختیارات والی جگہ پر جانے کا خناس پیدا ہوتا ہے۔ خود کو کمانڈو کہلوانے کا شوق رکھنے والا مشرف صحافت کے امام کے اس ایک جملے کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے اخباری مدیران کے ساتھ جاری نشست ختم کردی۔
دل کے تین بائی پاس آپریشن کرانے کے باوجود جواں ہمت اور بلند عزم کے ساتھ عزت و آبرو والی زندگی جینے کے بعد یہ مرد ِ مجاہد اپنی زندگی کے 86 پورے کرنے کے بعد مقدس ساعتوں میں رب کے حضور پیش ہوگیا۔ آپ نے پیشہ صحافت میں جہاں اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے روشن اصولوں کی آبیاری کی وہیں آپ نے بامقصد اور اصولی صحافت کے تحفظ و فروغ میں ثابت قدمی کی نئی مثالیں قائم کرکے امامِ صحافت اور آبروئے صحافت کا درجہ بھی حاصل کیا۔ایوبی مارشل لاء میں اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے انتقال کے بعد آپ نے نوائے وقت کی باگ ڈور سنبھالی،اور اس اخبار کواپنے مرحوم بھائی کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ ایک تناور درخت بنا کر میدان صحافت میں لا کھڑا کیا۔ آپ نے صرف خبریں ہی چھاپنے کا کام نہ کیا بلکہ جب ملک پہ مشکل وقت آیا تو دو ٹوک لہجے میں عوامی جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔آج کل جس طرح کی صحافت ہورہی ہے اس دیکھتے ہوئے ملکی اور دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والے ہر محب وطن شہری کوہر گزرتے سال ان کی کمی اور زیادہ شدت سے محسوس ہورہی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ان کے قد کا کوئی اور صحافی پیدا نہیں ہو سکا تو یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔جب تک صحافت باقی ہے جب پاکستان باقی ہے امام صحافت جنا ب مجید نظامی کا نام باقی رہے گا۔