آئی ایم ایف کے بعد اب عالمی بنک کا ’’ڈومور‘‘
عالمی بنک کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی 1974ء کے بعد سب سے زیاد رہی، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران مہنگائی 50 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں کافی اضافہ ہوا، مالی سال کی پہلی ششماہی میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 50.6 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 40.6 فیصد تھی۔ روپے کی قدر میں استحکام، فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے باوجود مہنگائی بڑھی، عالمی مارکیٹ میں قیمتوں پر دبائو میں کمی کے باوجود مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بنک نے اس امر کا تقاضہ کیا کہ سرکاری اداروں کی حکومتی امداد فوری محدود کرنے پر عمل کیا جائے اور سرکاری ملکیتی اداروں کے مالی اخراجات کو کم کیا جائے۔
عالمی بنک کی رپورٹ سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ سرکاری سطح پر ہونیوالے سرویز اور ماسوائے ادارۂ شماریات کے‘ تمام اندرونی اور بیرونی اداروں کی رپورٹیں مہنگائی میں کمی کے محض دعوے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے ہی مترادف ہیں۔ ادارۂ شماریات اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں تواتر کے ساتھ مہنگائی بڑھنے کی نشاندہی کرتا رہتا ہے جس پر کان نہیں دھرے جاتے۔ حکومتی دعوئوں اور اقدامات کے باوجود مہنگائی عروج پر نظر آرہی ہے‘ بالخصوص ماہ رمضان میں تو مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ گزشتہ روز عالمی بنک کی رپورٹ حکومت کیلئے نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ حکومتی دعوئوں کی قلعی بھی کھولتی نظر آرہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اخراجات پر قابو پا کر اور حکومتی آسائشوں میں کمی کرکے مہنگائی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے جس کیلئے عالمی بنک اور آئی ایم ایف بھی بارہا حکومت سے تقاضا کرتے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم شہبازشریف خود گزشتہ دنوں اپنی کابینہ سمیت حکومتی اخراجات میں کمی کا اعلان کر چکے ہیں مگر بدقسمتی سے ابھی تک اس اعلان پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہی آئی ایم ایف اور اب عالمی بنک کی جانب سے اداروں کے اخراجات کم کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے جو ایک لحاظ سے پاکستان کو ڈکٹیشن دینے کے ہی مترادف ہے۔ اگر حکومت خود ہی اپنی اعلان کردہ پالیسی پر عملدرآمد شروع کر دے تو کسی بیرونی ادارے یا ملک کی طرف سے ڈکٹیشن دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ بے شک اس وقت معاشی طور پر پاکستان غیرمستحکم ہے‘ جس کیلئے اسے مالیاتی اداروں اور دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اگر اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے سرکاری سطح پر کفایت شعاری کا عمل شروع کر دیا جائے تو آئی ایم ایف اور عالمی بنک جیسے مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن سے چھٹکارا پانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ قرض پروگرام آخری ہوتاکہ آئندہ عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن قبول کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔