• news

  منگل‘ 29    رمضان المبارک  1445ھ ‘   9  اپریل  2024ء

ڈرگ فری پنجاب ویژن، نوجوانوں کو منشیات سے بچانا عزم ہے،پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف۔
منشیات بیچنے اوراستعمال کرنے کے خلاف مریم نواز کی حکومت کمٹڈ نظر آتی ہے۔گزشتہ17 روز میں 10 چھاپے مارے گئے۔ پانچ ہزار کے قریب منشیات فروشوں کوگرفتار کیا گیا، تین ہزار کلوگرام سے زیادہ چرس 20 کلو افیون اور 17 کلو آئس برآمد کی گئی۔پنجاب حکومت اپنے تئیں منشیات کے خلاف جو ممکن ہے کر رہی ہے۔ یہ وبا پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے لہٰذا ملکی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس لعنت میں نوجوان نسل خصوصی طور پر مبتلا ہو رہی ہے۔ کبھی پلوں کے نیچے ٹرین کی پٹڑیوں کے پیچھے پاؤڈری نشہ کرتے تھے آج کل چوکوں  چوراہوں گلیوں بازاروں میں بھی اوندھے منہ پڑے نظر آتے ہیں،یہ معاشرے کی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں، عرف عام میں ان کو جہاز کہا جاتا ہے۔ آج کل نشے کا باقاعدہ علاج  موجود ہے لیکن اس کے لیے عادی کا نشے سے تائب ہونے کا عزم ضروری ہے ورنہ سیدھے موت کی وادی منزل ٹھہرتی ہے۔نشے کے پس پردہ حقائق کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اس کی وجوہات میں بے روزگاری اور تعلیم کا مہنگا ہونا بھی شامل ہے۔بے روزگار عموماً دو راستوں میں سے ایک پر چل نکلتے ہیں لوٹ مار راہزنی ڈکیتی کی طرف یا پھر نشے کی طرف۔ جنہوں نے معاشرے کا کار آمد فرد بننا ہوتا ہے وہ معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے  بیروزگاری کے خاتمے اور سستی معیاری تعلیم کے  اقدامات اٹھائے جائیں تو بے روزگاری اور منشیات کے استعمال کا سد باب ہو سکتا ہے۔ 
٭…٭…٭
میری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، علی زیدی کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو وارننگ۔
سیاست میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں بلکہ کچھ لوگ تو سیاست میں اختلافات کو جمہوریت کا حسن بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ اختلافات بڑھ کر سر پھٹول تک چلے جائیں تو  ان کو جمہوریت کا حسن کرشمہ ساز کہنا چاہیے۔ پارٹیوں کے اندر بھی اختلافات ہوتے ہیں اقتدار میں آنے والی پارٹی میں اختلافات دب جاتے ہیں مگر اپوزیشن  پارٹی کے اندر کے اختلافات سر میدان اْبلتے ہیں اور قلانچیں بھرتے نظر آتے ہیں۔ آج تحریک انصاف اس حوالے سے مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے موجودہ اور متروکہ لیڈر بس دست و گریبان نہیں ہو رہے زبانی کلامی جہاں تک صلواتیں سنا سکتے ہیں سنا رہے ہیں۔رت بدلنے پرعلی زیدی تحریک انصاف چھوڑ کر آئی پی پی کو پیارے ہو گئے۔اب پھر ان کا رجحان تحریک انصاف کی طرف ہے۔عمران خان کی حمایت میں داغ مفارقت سے پہلے کی طرح بڑے بڑے بیان داغ رہے ہیں لیکن ان کی پذیرائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ان کے بیانات کی کوئی نفی کر دے تو اس پر زیدی صاحب گرز گھما کروارننگ دے رہے ہیں۔ ان کی وارننگ کو اسی طرح سے مصدقہ جاننا چاہیے جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کا ساتھ چھڑانے کے لیے یہاں پہ یعنی کنپٹی پہ گولی مارو۔ کسی نے کن پٹی پر تو گولی نہیں ماری البتہ کان کھینچ کر کان کی کھڑکیاں کھول دیں۔ اگلے چند روز میں وہ آئی پی پی کی درگاہ  اور در دولت پر حاضر تھے۔اب تحریک انصاف میں واپسی کی ان کی کوشش ہے۔ اس پر ولید اقبال نے کہا کہ علی زیدی عمران خان کے فارمولے پر پورا نہیں اترتے۔زیدی صاحب نے ہو سکتا ہے کہ وہ فارمولا منگوا لیا ہو یا چرا لیا ہوجس پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ویسے علی زیدی کو کہیں تو مستقل مزاجی دکھانی چاہیے۔ یا تو پی ٹی ائی کو نہ چھوڑتے جب چھوڑا تو پھر چھوٹی رہنے دیں۔اب جن کو وفا کا یقین دلایا ان سے وفا نبھائیں۔
٭…٭…٭
رمضان میں سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی ڈانس ویڈیوز بنانے کا حکمنامہ منسوخ۔
وفاقی نظامت تعلیمات نے یونیسکو کے کہنے پر طلبہ و طالبات کی ڈانس ویڈیوز بنا کر شیئر کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔حکم نامے میں تعلیمی اداروں میں بچوں اور بچیوں کی ڈانس ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اسلامی اقدار سے متصادم اس نوٹی فکیشن کے اجرا پر والدین کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا جس کے بعد حکمنامہ واپس لے لیا گیا۔بچوں سے رقص کروا کر ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی یونیسکو مہم ایجوکیشن ان دی ایئر کا حصہ ہے، جس کے تحت بچوں میں ایجوکیشن تھرو ڈانس کو فروغ دینا ہے۔رقص کی طرح موسیقی میں بھی دو رائے ہو سکتی ہیں کچھ لوگ موسیقی کو حرام اور کچھ روح کی غذا کہتے ہیں۔خیال اپنا اپنا رائے اپنی اپنی، رقص کو بھی کوئی حرام قرار دیتا ہے کوئی اسے بدن کی شاعری سمجھتا ہے۔ اپنے طور پر کوئی جو بھی سوچے ،سمجھے اور کرے مگر دوسروں کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ایجوکیشن تھرو ڈانس رقص کے ذریعے تعلیم۔ جو اسے مانیں وہ مانیں مگر سکولوں میں حکماً لاگو کرنا والدین کی تشویش کا باعث بننا ہی تھا۔ کسی سیکولر سوسائٹی میں تو اس پر ستائش ہو سکتی ہے مگر اسلامی جمہوریہ میں چودھری شجاعت کے اقوال اور جنرل پرویز مشرف کی ٹھمکا گری کو جواز بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔رقص کی ایک محفل جس میں چوہدری شجاعت حسین بھی موجود تھے اس پر جھکڑ چلے تو چوہدری صاحب نے وضاحت کی کہ وہ رقص نہیں دھمال تھی۔ چوہدری صاحب نے خود دھمال ڈالی یا نہیں؟۔ ڈالی تو کیسی ڈالی ہو گی البتہ صدر مشرف شکرونڈاں پیا آئیو کی دھن پر ناچ ناچ کر بے سدھ ہو جایا کرتے تھے۔ چونکہ گھنگرو نہیں پہنتے تھے چنانچہ گھنگرو ٹوٹنے سے بچ جاتے۔رمضان کی وجہ سے ڈانس نوٹیفکیشن واپس لیا گیا ہے۔ رمضان کے بعد گویا پھر حکم نامہ نافذ العمل ہوگا۔پہلے تو شاید یہ حکم نامہ چل جاتا اب اس کی دھول اڑ گئی ہے، بہتر ہے حکام چپ رکھیں۔
٭…٭…٭
اٹھارہ سالہ مٹھو اور 35 سال کی پنکی کی شادی ، عید کی خوشی بھی شامل۔
یہ طوطا مینا کی نہیں فیصل آباد کے اصل کرداروں کی شادی ہے اور یکطرفہ محبت کی داستان بھی جو کسی المیے سے دوچار ہوتے ہوتے بچی۔ مٹھو بھائی کا اصل نام شہزاد ہے جو اس کے بقول بچپن سے اپنی سے دْگنا عمر کی کزن پر فریفتہ تھا۔ 18 سال کا ہوا تو دل کی بات اپنی کزن کو مل سے کی جو بچے کی خواہش پر ششدرہ رہ گئی مگر خواہش بڑی دلربا تھا اسے ٹھکرا نہ سکی۔ پل دو پل میں نوعمر کزن کی محبت کی اسیر ہو کر مریض محبت بن گئی۔ دونوں کی حالت یہ ہو گئی 
ز حال مسکین مکن برنجش
بحال ہجراں بیچارہ دل ہے
سنائی دیتی ہے جس کی دھڑکن
تمہارا دل یا ہمارا دل ہے
دونوں نے اپنے اپنے والدین سے بات کی تو مٹھو کی دھلائی در دھلائی ہونے لگی۔ کومل کو بھی سخت سست سننی پڑیں۔ شہزاد مجنوں بن چکا تھا۔ بالآخر دونوں کے والدین شادی پر آمادہ ہوگئے اور عید سے پہلے اس بے جوڑ جوڑے کا مایہ ناز جوڑا بن گیا۔ شادی کے بعد کومل نے شہزاد کا پیار سے نام مٹھو جبکہ مٹھو نے اپنی محبوبہ کا نام پنکی رکھ دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ پنکی کا کہنا ہے کہ اس کے عاشق کو مجھ سے عشق کی بنا پر اور شادی کے اصرار پر پھینٹا لگتا تو میرے دل پر چوٹیں پڑتی تھیں:کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو۔ ویسے نامراد سے بامراد عاشق بننے تک کئی مشکلیں درپیش آتی ہیں۔ جو منزل مقصود کے حصول کے بعد نو دو گیارہ ہو کر رفوچکر ہو جاتی ہیں۔ مٹھو اور پنکی کو شادی کے ساتھ عید کی خوشیاں بھی مبارک۔

ای پیپر-دی نیشن