ہفتہ‘ 4 شوال 1445ھ ‘ 13 اپریل 2024ء
وزیراعلیٰ سندھ کے بیان پر سابق نگران وزیر داخلہ نے نو کمنٹ کہہ دیا۔
مراد علی شاہ نے ایسا کیا کہا کہ حارث نواز کو پوزیشن کلیئر کرنا پڑی۔ مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ نگران حکومت نے سندھ کے ایس پی اور تھانے دار یوں تبدیل کیے جیسے وہ سب میرے رشتے دار ہوں۔ عملہ، ہیڈ منشی کہیں سے کہیں پھینک دیے، اسی لیے امن و امان کے مسئلے نے جنم لیا، اس کوٹھیک کر نے میں وقت لگے گا۔حارث نواز نے کہتے ہیں انہوں نے کوئی ایس پی یا ایس ایچ او نہیں لگایا، تمام پوسٹنگ آئی جی نے سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد کیں، ہمارے دور میں جرائم کا گراف بہت نیچے تھا۔اب تیسری پارٹی سے فیصلہ کروا لیا جائے کہ نگران دور میں یا اس سے پہلے مراد علی شاہ کی وزارت اعلیٰ کے دوران جرائم کا کیا گراف تھا؟ویسے مراد علی شاہ بیٹھے بیٹھے غصہ کھا گئے۔نگرانوں کو آپ سے کیا پرخاش تھی کہ بڑے افسروں کو آپ کے رشتہ دار سمجھ لیا۔ عملہ منشی جہاں بھی پھینکے وہاں جاکر بھی وہی اپنی روٹین میں گل کھلاتے، سانپ نکالتے، سون چڑیا اڑاتے ،مرغ بٹیر لڑاتے ،کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہوں گے۔مراد شاہ نے کہا کہ نگران حکومت کے دور میں امن و امان کے جنم لینے والے مسئلے کو ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔نگرانوں نے اگر کچے سے لاکر ایس پی ،تھانیدار منشی لگا دیئے ہیں تو انکو نکال دیں۔انکی پارٹی کے عظیم لیڈرنے نصف صدی قبل تاشقند سے واپسی پرکہا تھا، وقت آنے پر بتاؤنگا، ایوب خان نے کیسے قومی سلامتی کا سودا کیا، انکی زندگی میں وہ وقت نہیں آیا۔مراد علی شاہ یقیناً پھرتی دکھائیں گیامن و امان کی صورتحال پر قابو پانے میں اتنا وقت نہیں لیں گے۔
٭…٭…٭
بھکاری بھی عید منانے اپنے اپنے علاقوں کو چلے گئے۔ا نکی اورپردیسیوں کی کل سے واپسی ہوگی۔
روئیت ہلال کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔رات نو بجے چاند دیکھے جانے کا اعلان ہؤا۔اعلان کرنے کے بعد علماء کرام اور شرکاء اجلاس جہازوں میں بیٹھے اور اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔اکثر علماء کرام نے اگلے روز عید کا خطبہ بھی دینا تھا۔اس عید پر پانچ چھٹیاں کی گئیں۔چھٹیوں کا آغاز بدھ کے دن یعنی عید کے دن سے سے ہوا۔منگل کے روز سرکاری چھٹی نہیں تھی۔سرکاری چھٹی کا اطلاق نجی اداروں پر بھی ہوتا ہے۔ یہ لوگ ڈیوٹی کرکے کیسے عید پر گھر پہنچے ہوں گے؟ بڑے شہر پردیسیوں سے عید پر خالی ہو جاتے ہیں۔ کل اتوار کو پردیسی اپنے مستقل دیس سے عارضی دیس یعنی پردیس لوٹ آئیں گے۔ مانگنے والے دور دراز کی بستیوں اور آبادیوں سے بڑے شہروں میں آتے ہیں وہ بھی عید منانے کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں ٹیکسی چنگچی کراکیچلے جاتے ہیں۔چوراہوں میں بھیڑچھٹ جاتی ہے۔ان کی کمی کو کوئی اور محسوس کرے یا نہ کرے چوک چوراہے ضرور محسوس کرتے ہیں۔حکومت کی طرف سے بھکاریوں کے خلاف آپریشن ہوتا ہے جو جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے اس کے پیچھے سوچ یہی ہوتی ہے کہ چوک چوراہے بے رونق نہ ہوں۔بھکاری بھی اپنے پیشے اور بزنس میں جدتیں لے آئے ہیں۔جعلی لنگڑے اندھے گونگے بہرے تو پہلے ہی موجود تھے۔بہت سے بھکاری اور بھکارنیں گلے میں تختیاں ڈالے نظر آتی ہیں اور کئی سپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آئندہ بھکاری ایک چوک میں دو چار روبوٹ چھوڑ کر اپنی آمدن میں چار پانچ گنا اضافہ کر لیں۔
٭…٭…٭
ملزم کی گرفتاری کیلئے جانے والی پولیس کو یرغمال بنا لیا گیا
یہ واردات کچے کے علاقے میں نہیں بلکہ پکے کے علاقے میں پکے پاؤں کی گئی۔کچے کے علاقے میں منظم ڈکیت گروہ موجود ہیں۔پولیس وہاں جاتی ہی نہیں۔ کسی نے کچے پر پاؤں رکھنے سے پولیس کو منع کیا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس پکڑے تو کسی رکشے والے کو، کسی بائیک والے یا کسی کنڈکٹر ڈرائیور کو ایک دو جھانپڑ لگا دے یا چائے والے کو تڑی لگا کر خرچی مرچی نکلوا لے۔ حکومت پولیس کو کچے کے علاقے میں آپریشن کرنے پر مجبور بھی نہیں کرتی۔ جب کبھی کان تتا ہوتا ہے تو رینجرز اور فوج کے ذریعے آپریشن کیا جاتا ہے۔ ایسی کارروائی سے پہلے کہیں نہ کہیں سے کچے کے ڈاکوں کو مخبری ہو جاتی ہے۔ایسے مواقع کے لیے انہوں نے پکے بندوبست کیے ہوتے ہیں۔ ایس ایچ او سمیت پولیس ٹیم بہاول نگر میں ملزم کی گرفتاری کے لیے گئی، ریڈ کیا گیا تو گھر والے پڑ گئے ان کا موقف تھاکہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ خواتین سمیت 23 لوگ تھے جنہوں نے ایس ایچ او سمیت پوری پولیس پارٹی کو یرغمال بنا لیا۔ان سے موبائل اور افطاری کے لیے جیب میں رکھے گئے پیسے بھی لے لیے۔ایک کے پاس نسوار کی پڑیا اور کسی کی تلاشی کے دوران نکالی گئی گولڈ لیف کی ڈبی تھی۔وہ بھی گئیں۔ عام شہری اپنی حفاظت کے لیے پولیس سے تحفظ مانگتا ہے۔اب پولیس خود کس سے تحفظ مانگے؟۔ پولیس کو چاہیے کہ اپنی حفاظت کے لیے انکو یرغمال بنانے والوں کی خدمات حاصل کر لے،یا پولیس کی حفاظت کے لیے ایک اور فورس بنا لی جائے۔چار پولیس والے ریڈکرنے جائیں تو 60 ان کی حفاظت پر مامور ہوں۔
٭…٭…٭
بجلی چوری کے خاتمے کے لئے 23 اپریل کی ڈیڈ لائن۔
ہرچہ آمد عمارتِ نو ساخت۔ بجلی کا جو بھی وزیر آیا وہ نئی پالیسی کے ساتھ ساتھ کئی خوشخبریاں بھی ساتھ لایا۔ آج کی حکومت میں مسلم لیگ ن سرخیل ہے۔ حکومت سازی میں پیپلز پارٹی کا سب سے زیادہ گہرا اور اعلیٰ و ارفع کردار ہے۔ آئی پی پی تحریک انصاف سے ٹوٹا ہوا تاراہے اس کے بڑے لیڈر علیم خان کے پاس اعلیٰ و عمدہ وزارت ہے. ان میں سے ہرپارٹی کی اعلیٰ لیڈر شپ کی طرف تین سو یونٹ فری بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ وہ صارفین ہاتھ کھڑا کریں جن کو تین سو یونٹ فری بجلی مل رہی ہے۔ اویس لغاری صاحب نے 23 اپریل کی بجلی چوری کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ 23 اپریل کے بعد بجلی چوروں کے کیا ہاتھ کاٹ دئیے جائیں گے؟ اگر چوری کرنے والوں کیساتھ چوری کرانے والے بھی اسی سزا کے مستوجب قرار دئیے گئے تو واپڈا کے ادنیٰ اہلکار سے لے کر اعلیٰ افسروں تک ہر تیسرا ملازم ٹنڈا نظر آئے گا۔ اگر چوروں اور ان کے پشت پناہوں کی دْم ہوتی وہ سزا کے طور پر کٹتی تو کئی سابق وزیر تک لْنڈے ہو چکے ہوتے۔ مگر اب تک ایکشن نہ لینے پر بجلی چور اور چتر غنڈے ہوچکے ہیں۔ ان کی غنڈہ گردی سے ایمانداری سے بل ادا کرنے والے بل ادا کر کر کے کبڑے ہو گئے ہیں۔ وزیر بجلی نے چوروں کو وارننگ دی اور ساتھ موج بھی کرا دی، 23 اپریل تک دل کھول کر بجلی چوری کریں پھر ڈیڈ لائن اور حساب دینا پڑیگا۔ بعدازاں جو پکڑے جائیں گے وہ قسم کھا کر اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ ان کو جھوٹا نہ سمجھا جائے۔ ان سے بلوچ قبائل میں مروجہ کوئلوں پر چلنے کی طرز پر قسم لے لی جائے۔ ان کو بجلی کی ننگی تار پکڑنے کو کہا جائے اور پہلے قسم لینے والا تار کو ہاتھ لگا کر چیک کر لے کہ بجلی آ بھی رہی ہے۔ قسم کا وقت لوڈ شیڈنگ کے دوران کا نہ رکھا جائے۔
٭٭٭٭٭