فہم و فراست کے مجسم یوسف رضا گیلانی شخصیت کے آئینے میں
عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
جب پرویز مشرف کا نو سالہ آمرانہ و تاریک دور ختم ہوا' اور 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں جمہوری حکومت قائم ہوئی، تو یہ صوفیا کی سرزمین ملتان سے تعلق رکھنے والے مردقلندر سید یوسف رضا گیلانی تھے، جنہوں نے بطور وزیراعظم 4 سال تک ایسے انداز میں فرائض منصبی انجام دیے' کہ پاکستان کو پھر سے دنیا بھر میں عزت اور عروج ملا،پاکستانیوں کو دوبارہ سے قدر و منزلت ملی۔
یوسف رضا گیلانی حکومت کے شروع کے محض دو سالہ دور میں ہی ملک اور قوم کی بہتری سے متعلق اتنے کام ہوئے کہ جسے انتشار سے استحکام تک کا سفر گردانا گیا۔ پہلے دس کارناموں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی، آئینی اصلاحات، ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ، آغاز حقوقِ بلوچستان، گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، وسیلہ حق پروگرام، بے نظیر ایمپلائیز سٹاک آپشن سکیم، خواتین کی ترقی و تحفظ اور کسان دوست اقدامات سمیت دیگر خدمات تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
جمہوری حکومت کے چار سال پورے ہوتے ہیں تو 2012 میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے پانچ سال کے لیے انہیں نااہل کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ واحد وزیر اعظم تھے جنہوں نے نااہلی کے فیصلے کے بعد "مجھے کیوں نکالا" یا "مجھے سازش کے تحت نکالا" جیسے بیانیے نہیں اپنائے بلکہ خاموشی سے کرسی اقتدار چھوڑ دی۔اب 12 سال بعد اسی یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ بن کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ واحد سیاست دان ہیں جو وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کا تعلق ملتان کے ایک بااثر گیلانی گھرانے سے ہے جو پچھلی کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہیں۔
ملتان کی درگاہ حضرت موسٰی پاک کا گدی نشین ہونے کی بنا پر ان کا خاندان مریدین یا روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔یوسف رضا گیلانی کے دادا سید غلام مصطفی رضا شاہ گیلانی تحریک پاکستان کے ان عظیم رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کبھی کسی انتخاب میں شکست نہیں کھائی۔ یوسف رضا گیلانی کے والد کا نام سید علمدار حسین گیلانی ہے،جبکہ معروف سیاستدان حامد رضا گیلانی ان کے رشتے کے چچا تھے۔
یوسف رضا گیلانی کے چار بیٹوں میں سے دو بیٹے،عبدالقادر گیلانی اور علی موسی گیلانی اس وقت ممبر قومی اسمبلی ہیں جبکہ علی حیدر گیلانی پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔علی قاسم گیلانی، والد کی قومی اسمبلی کی خالی نشست سے امیدوار نامزد ہیں اور ضمنی انتخابات میں جیت کے لیے پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں کئی مرتبہ نوائے وقت کے لیے ہمیں یوسف رضا گیلانی کا انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا،جس سے ان کی شخصیت کے کئی پہلو قارئین کو بھائے۔ آج ان ہی انٹرویوز میں سے چند باتیں،اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی شخصیت سے متعلق تجزیہ قارئین کے گوش گزار کرتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی سیاسی و معاشی استحکام سے متعلق ہمیں بتاتے ہیں کہ سیاسی استحکام تمام مسائل کا واحد حل ہے،جو سڑکوں پر نکلتے ہیں وہ چاہتے ہی نہیں کہ ملک آگے بڑھ سکے۔سیاسی استحکام اگر پیدا ہوجائے تو معیشت ٹھیک ہوجائے گی اور اگر معیشت درست سمت گامزن ہو گئی تو سڑکوں پر نکلنے والوں کے مقاصد بھی دفن ہوجائیں گے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے مجھے بتایا کہ بطور وزیر اعظم انہوں نے چین اور ترکی کو پاکستان کیساتھ زیادہ مخلص پایا۔اپنے بچپن سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ ایک آل رائونڈر تھے۔ایتھلیٹ تھے،سو میٹر ریس،200 میٹر ریس، ایک میل ریس،لانگ جمپ،ہائی جمپ،رسبی، کرکٹ، فٹ بال، پینٹنگ ڈرامہ اور تقاریر میں حصہ لیتے تھے۔انہیں کھانے میں قیمہ پسند ہے۔جبکہ زمانہ طالب علمی میں بھنڈی خود بنا لیتے تھے۔سید یوسف رضا گیلانی کو ادب سے بھی لگائو ہے۔ احمد فراز اور غالب ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ تنقید اور اپنے خلاف پروپیگنڈہ پر کہا کہ میں مخالفین کی کم عقلی پر ہنستا ہوں۔ وقت کی پابندی،ہنس مکھ طبعیت،دوستوں ان کی شخصیت کا بنیادی جزو ہے۔
حتی کہ جب 6 سال جیل میں میں قید رہے تب بھی ان کے شب و روز وقت کے پابند تھے۔ جبکہ باغبانی ان کا من پسند مشغلہ ہے۔ ویسے تو یوسف رضا گیلانی کا تعلق ملتان سے ہے لیکن اسلام آباد کا پرسکون ماحول انھیں ملتان سے زیادہ پسند ہے۔
یوسف رضا گیلانی اخبار بینی کا شغف رکھتے ہیں اور روزنامہ نوائے وقت پڑھتے ہیں۔
جیل میں 6 سال گزارے شب و روز سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی بتاتے ہیں کہ قید کی ایسی عادت ہوگئی تھی کہ اگر کسی روز رات کو جیلر تالا لگانا بھول جاتا تھا تو میں پریشان ہو جاتا کہ انھوں نے تالا کیوں نہیں لگایا۔
اس کے علاوہ پاکستان کی عورت کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں۔بتاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو شہید وومن امپاورمنٹ پر یقین رکھتی تھیں۔اسی لیے میں نے اپنے دور اقتدار میں بینظیر انکم سپورٹ میں خاتون کو سربراہ بنایا۔اس سے یہ ہوا کہ جن خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنوائے جاتے تھے ان کے بھی شناختی کارڈ بنے۔
یوسف رضا گیلانی مایوسی سے دور رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت مسلمان میرا عقیدہ ہے کہ عزت،ذلت،رزق اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب مجھے نا اہل کیا گیا تب بھی میں مایوس نہیں ہوا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب تک جتنے وزراء اعظم نااہل ہوئے سبھی کے کیسز عدالت میں چلے لیکن میں واحد وزیر اعظم تھا جو نا اہلی کے بعد عزت سے گھر آگیا۔
2021 میں سینیٹ کے انتخابات میں جب حکمران جماعت کے امیدوار اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دے کر پہلی بار ایوان بالا کا رکن منتخب ہوا تب بھی مجھ پر امریکہ کی مدد کا الزام لگایا گیا ،مجھے امریکہ نے نہیں جتوایا بلکہ ہم نے آئی ایم ایف کے نمائندے وزیر خزانہ کو ہرایا تھا۔تبھی ان کے صدر نے یہ مانا تھا کہ ہم اکثریت کھو چکے ہیں اور پھر انھیں اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔
فہم و فراست اور دوراندیشی کے مجسم سید یوسف رضا گیلانی اب ایوان بالا کے چیئرمین ہیں۔ جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائے، اپنے بزرگوں کی روایت کے مطابق عوام کی خدمت کی۔ اب چیئرمین سینٹ کے منصبی فرائض کی ادائیگی بھی یقینا بھرپور طور پر سر انجام دیں گے۔