پیر‘ 6 شوال 1445ھ ‘ 15 اپریل 2024ء
چمن میں اپوزیشن کا جلسہ، مروت نے ڈیزل کے نعرے لگانے سے روک دیا
اب جو عادت پختہ ہو چکی ہو جو مقبول عام نعرہ یا جملہ زبان پر چڑھ چکا ہو‘ اسے بھلا یکدم کیسے اتارا جا سکتا ہے یا روکا جا سکتا ہے۔ سو یہی اپوزیشن کے چمن والے جلسے میں ہوا جہاں پرچموں کی حد تک تو محمود اچکزئی کی جماعت کے پرچم اور پی ٹی آئی کے جھنڈے بہار دکھا رہے تھے۔ کل تک یہاں اچکزئی کے حامی پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرانے نہیں دیتے تھے۔ خیر یہ کل کی بات تھی‘ آج جب جلسے میں پی ٹی آئی کے شیرافضل مروت تقریر کر رہے تھے تو ان کی طرح کے جذباتی کھلاڑی بے لگام ہو گئے اور انہوں نے پرزور انداز میں ایک بار پھر مولانا ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ اب کیا تھا محمود اچکزئی منہ دوسری طرف کرکے ہنسنے لگے۔ سٹیج پر بہت سے لبوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ شیر افضل مروت نے فوراً لوگوں سے کہا یہ نعرے نہ لگائیں روک دیں کیوں کہ ہماری آج کل ان سے بات چل رہی ہے۔ اس پر تو…
یونہی موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
اب بھلا پی ٹی آئی کے کارکن جنہیں ایسے نعرے ازبر کرائے گئے تھے وہ یکدم کیسے اس سے رک پائیں گے۔ آگے بھی جلسوں میں نجانے کون کون سے نعروں سے روکنا ہو گا کہ خدارا چپ ہو جائو‘ہماری ان سے بات چیت چل رہی ہے۔ یعنی معاملہ طے ہو رہا ہے۔ یہ ہے ہماری سیاسی اخلاقیات اب اگر کسی جلسے میں اچکزئی یا مینگل کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کھلاڑی ازبر شدہ مقول نعرے لگا بیٹھے تو کیا ہو گا۔ پھر عمر ایوب یا شیرافضل کس منہ سے ایسے معاملات کا سامنا کریں گے۔ شرارتی تو ہر جگہ ہوتے ہیں ذرا سی شرارت تماشہ لگا سکتی ہے۔ اس لیے مشتری ہوشیار باش۔
٭٭٭٭٭
کراچی ائیر پور پر بچی سے سکیورٹی اہلکار کی بدسلوکی کے واقعہ کے بعد‘ اب ٹرین میں پولیس والے کا خاتون پر تشدد
کراچی ائیر پوٹر پر بچی کو بالوں سے پکڑ کر زمین پر دھکا دینے والی ویڈیو نے ہزاروں دلوں کو زخمی کر دیا۔ کیا یہ کسی انسان کی حرکت ہو سکتی ہے۔ لوگ تو بلی یا کتے کے بچے کو سڑک پر بے یارو مددگار دیکھ کر رکھ جاتے ہیں اور اسے محفوظ مقام پر رکھ آتے ہیں تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اب پتہ چلا ہے کہ یہ شخص تو انسان نہیں‘ درندہ تھا جس کو معطل کیا گیا ہے۔ سزا کب ملے گی ‘یہ ناقابل معافی حرکت ہے۔ظلم بہرحال قابل نفرت ہی ہوتا ہے۔ اب گزشتہ دنوں ایک اور ویڈیو میں ایک ریلوے پولیس اہلکار کو ایک خاتون پر وحشیانہ تشدد کرتے دیکھ کر اور زیادہ افسوس ہوا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بوگی بھری ہوئی تھی کسی نے بھی وردی پوش کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید ایسا ڈر لگتا تھا۔ اب بتایا جا رہا ہے یعنی عذر گناہ بدتر از گناہ پیش ہو رہا ہے کہ یہ خاتون بنا ریزرویشن سوار تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں مگر کسی ریلوے پولیس والے کو تو قانون کے تحت ٹکٹ چیک کرنے کا اختیار ہی نہیں تو پھر یہ دھینگا مشتی کیوں۔ خاتون پر ہاتھ اٹھانا وہ بھی سرعام‘ بذات خود جرم ہے خواہ کوئی وردی والا کرے یا عام شہری۔ ایسے واقعات کا سختی سے سدباب ہونا ضروری ہے۔ انسانی لباس میں چھپے ان درندوں کو قانون کا سبق سکھانا ضروری ہے تاکہ یہ اپنے کینڈے میں رہیں۔ امید ہے حکومت ان دونوں واقعات کے ملزموں کو سزا دے کر سرخرو رہے گی۔
٭٭٭٭٭
ویتنام میں ارب پتی خاتون کو کرپشن پر سزائے موت
اگر ویت نام جیسے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے تو بہت بڑی بات ہے۔ لگتا ہے وہاں صرف اعلانات تک بات محدود نہیں ہوتی عملاً بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو کہا جاتا ہے۔ جن جن ممالک میں سزائیں دینے کا قانون موجود ہے، وہاں دیکھ لیں جرائم کی رفتار کم ہے۔ ویتنام میں جس ارب پتی خاتون کو کرپشن کے جرم میں سزائے موت دی گئی یعنی پھانسی پر لٹکایا گیا‘ کیا اس کے اعلیٰ سطح پر تعلقات نہ ہوں گے‘ کیا اسکے ہاتھ قانون سے زیادہ لمبے نہیں ہوں گے۔ کیا اس کی موثر حلقوں تک رسائی نہیں ہو گی ، یقینا یہ سب ہو گا مگر دیکھ لیں وہاں پھانسی دیدی گئی، اب کسی کو انسانی حقوق کا درد نہیں اٹھا۔ عورتوں کی آزادی یا حقوق نسواں کا دکھ نہیں جاگا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں دیکھ لیں جہاں کرپشن عروج پر ہے اور جرائم کی شرح بھی۔ مگر عورت کو پھانسی دینا تو دور کی بات ، کسی ملزم کو ہاتھ لگانے پر بھی سول سوسائٹی والے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کیونکہ یہ شور مچانے والے ہی جرائم اور کرپشن کی سرپرستی کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں بھی سنگین جرائم اور کرپشن پر اسی طرح سزائے موت لازمی قرار دی جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ بس انسانی حقوق، لبرل سوسائٹی اور حقوق و آزادی اظہار کے نام پر اٹھنے والے ہر درد کا علاج بھی پہلے تلاش کرنا ہو گا ، جو لوگ یہاں یہ بات کرتے ہیں وہ ذرا امریکہ یا یورپ میں جا کر یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر بات کر کے دیکھیں وہاں کے آزاد معاشرے میں ہی اسے چند لمحوں میں غائب کر کے 3 سال کے لیے بنا کسی کیس کے اندر ایسے پھینکا جائے گا کہ پتہ تک نہ چلے گا۔
٭٭٭٭٭
سوات کے قاری فضل وہاب کا تنہا 10 ہزار درخت لگا کر موسمی تبدیلی بہتری لانے کا عزم
کاہل کے لیے رائی کا دانہ بھی پہاڑ ہوتا ہے اور کام کرنے والے کے لیے پہاڑ بھی رائی کا دانہ ہوتا ہے۔ کام نہ کرنا ہو تو بہانے بہت ہوتے ہیں ، کرنے پر تل جائیں تو وجوہات بے شمار ہوتے ہیں۔ آخر فرہاد نے یونہی تو دیارِ عشق میں اپنا مقام نہیں بنایا ۔اس نے شریں کی محبت میں پہاڑ کاٹ کر نہر بنائی وہ بھی تن تنہا‘ اور ایک تیشہ کی مدد سے۔ اسی طرح یہ سوات کے ایک قاری فضل وہاب بھی ہیں جنہیں ہم دور جدید کا فرہاد کہہ سکتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی کوئی شریں نہیں ہے وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی راہ میں مقابلے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہوں نے تن تنہا چند سالوں میں اپنے علاقے میں 10 ہزار سے زیادہ درخت لگا کر ثابت کر دیا ہے کہ ہر شخص اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرے تو کوئی کام ناممکن نہیں رہتا۔ ورنہ لوگ جانتے ہیں کہ ہر سال ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری محکمے شجرکاری کے نام پر جو لاکھوں درخت لگاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں۔ اْدھر فوٹو شوٹ ختم ہوا یہ پودے واپس اکھاڑ کر نرسریوں میں فروخت ہونے کے لیے رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری ایک سابق حکومت نے اربوں درخت لگانے کا خواب دکھایا جو ان کے جانے کے بعد واقعی خواب ثابت ہوا ، درخت لگے یا نہ لگے مگر اربوں روپے کی کرپشن اس منصوبے میں ضرور سامنے آئی۔ آفرین ہے اس قاری فضل وہاب پر جو اکیلا ہی تمام حکومتوں اور سرکاری محکموں پر بھاری ہے۔ اگر ہمارے ہر علاقے میں ایک ایک ایسا شخص پیدا ہو جائے تو صرف 5 سالوں میں پورا ملک ایک بار پھر سرسبز ہو سکتا ہے، جس سے یہ بدترین موسمیاتی تبدیلیوں کی راہ بھی روکی جا سکے گی اور نامہرباں موسم بھی ایک بار پھر مہرباں موسم بھی ایک بار پھر مہرباں موسم بن کر پہلے کی طرح ہمارے ہاں موجود رہے گا اور طویل خشک سالی و گرمی سے نجات ملے گی۔
٭٭٭٭٭