یوروبانڈز کی ادائیگی
پاکستان نے ایک ارب ڈالر مالیت کے انٹرنیشنل یورو بانڈز کی ادائیگی کردی ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق، پاکستان کی جانب سے ایک ارب ڈالر مالیت کے انٹرنیشنل یورو بانڈز کی ادائیگی میں اصل رقم کے ساتھ منافع بھی ادا کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل یورو بانڈز کی ادائیگی ایجنٹ بینک کے ذریعے کی گئی ہے، جو بانڈز ہولڈرز کو ادائیگی کرے گا۔ 2014ء میں پاکستان نے ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ کا اجراء کیا تھا جو اپریل 2024ء میں میچور ہو گئے تھے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے میچورنگ بانڈز کی منافع سمیت بروقت ادائیگی کرکے بین الاقوامی سطح پر اس تاثر اور پراپیگنڈے کا ٹھوس جواب دیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے۔ اس ادائیگی سے پاکستان کی معیشت پر بیرونی سرمایہ کاروں، آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے مالیاتی اداروں کا اعتماد بڑھے گا۔ یوں آئی ایم ایف کو بھی ٹھوس پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان اس کی کڑی شرائط اور ’ڈومور‘ کے تقاضوں کے بغیر ہی اس کا قرض بروقت ہی چکانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 90ء کی دہائی میں پاکستانی معیشت میں استحکام نظر آتا تھا مگر 2000ء کے بعد معیشت جس طرح زبوں حالی کا شکار ہوئی اس کے پیچھے نہ صرف ناقص معاشی پالیسیوں کا عمل دخل ہے بلکہ حکمران اشرافیہ طبقات اور بیوروکریسی کی بے لگام ہوتی وہ مراعات ہیں جن کا بوجھ قومی خزانے پر پڑتا رہا ہے۔ اس وقت اتحادی حکومت کی جانب سے معیشت میں استحکام لانے کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے جس کے لیے وزیراعظم محمد شہبازشریف کابینہ سمیت تمام حکومتی اخراجات میں کمی کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ جب تک اس اعلان پر من و عن عمل درآمد نہیں کیا جاتا حکمران طبقات اور بیوروکریسی کی مراعات کا خاتمہ اور حکومتی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی، معیشت میں استحکام لانے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت پاکستان کو چین کی طرف زیادہ پوٹینشل نظر آرہا ہے، اس لیے پاکستان نے رواں سال 30 کروڑ ڈالر کے پانڈا بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو پہلی بار چینی مارکیٹوں میں فروخت کیے جائیں گے۔ یہ مستحسن فیصلہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کیش اینڈ بیلنس کے حوالے سے ایک مضبوط ملک ہے اور اپنے تمام قرضے بروقت ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی پاکستان کو ایسی مربوط پالیسی مرتب کرنی چاہیے جس سے ملک و قوم کو اس کے بے رحم شکنجے سے نجات دلائی جا سکے۔ جب تک پاکستان ان مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوتا، نہ معیشت میں استحکام آسکے گا اور نہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو پائے گا۔