ہمارا اْکھڑا ہوا معاشرہ
عیدی کمانے کا کلچر ہمارے معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکا ہے عید پر کپڑے سینے والا درزی ہی مان نہیں۔ وہ بھی عام دنوں سے زیادہ ریٹ وصول کرتا ہے منتیں علیحدہ سے کرواتا ہے۔ عید سے تین دن پہلے گوشت سبزیوں مٹھائیوں بیکری مصنوعات کے ریٹ اور ہوتے ہیں، چاند رات کو ریٹس کو بھی چارچاند لگ جاتے ہیں۔ عام دنوں میں ٹرانسپورٹ کے کرائے اور ہوتے ہیں، عید پر گھروں کو جانے اور عید منا کر آنے والوں کے لیے کرائے اور ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی سے شکوہ کرلو تو کہتے ہیں ہم نے بھی عید کمانی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کوئی بھی چیز خریدنے یا سروسز حاصل کرنے پر عیدی مانگ لی جاتی ہے۔ تہواروں پر کمائی کا رواج اتنا گہرا ہو گیا ہے کہ ان دنوں میں اگر آپ کو کسی دفتر میں کام پڑگیا تو سمجھ لیں کہ آپ کا کباڑا ہو گیا۔ گیٹ پر کھڑے اہلکار سے لے کر متعلقہ افسر تک ہر بندے نے آپ سے عیدی وصول کرنی ہے۔ کئی سرکاری اہلکار تو پرانی فائلیں نکال کر رکے ہوئے کاموں کو حل کرنے کی مشق میں جت جاتے ہیں۔ کئی پرانے کیس کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے بلوا کر عیدی وصول کر لیتے ہیں۔
بہاولنگر میں عید سے ایک دو روز قبل جو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس کے پیچھے بھی عیدی بناؤ پروگرام تھا جو بگڑتے بگڑتے آئین اور قانون کی بالادستی،ریاست کی رٹ مورال ، اختیارات اور طاقت کے استعمال تک جا پہنچا۔ اب ایک اعلی سطحی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ کس کا کیا قصور تھا اور پھر قصور واروں کو سزا دینے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔
پاکستان میں یہ تاثر بہت گہرا ہو چکا ہے کہ وقت پر جو کر گیا سو کر گیا بعد میں کچھ نہیں ہوتا۔ اور کئی معاملات پر آنکھیں بند بھی کرنا پڑتی ہیں۔ مگر کیمرے کی آنکھ بڑی ظالم ہے وہ سب کچھ آشکار کر دیتی ہے واقعات کی فوٹیج سب کچھ بتا دیتی ہے، یہ واقعہ اپنی جگہ پر ایک گھمبیرتا ہے لیکن اس پر جو سوشل میڈیا پر تماشہ لگا اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر سخن ور اپنا فن تخلیق کر رہے ہیں میمز بن رہی ہیں کئی قسم کی تخلیقات جنم لے رہی ہیں اور بیبس عوام اسے تسکین کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں۔ دراصل عوام کا براہ راست پولیس سے واسطہ پڑتا ہے پولیس اس حوالے سے بدنام بھی ہے کہ یہ مارتے بھی ہیں اور پیسے بھی لیتے ہیں۔ دوسرے محکموں کے اہلکار بھی کسی سے کم نہیں لیکن وہ آپ کا کچھ سنوارنے کے عوض نذرانہ لیتے ہیں جبکہ پولیس تشدد بھی کرتی ہے اور نذرانہ بھی لیتی ہے اس لیے عوام میں پولیس کے خلاف بدگمانی کچھ زیادہ ہی ہے۔
پچھلے ایک دو سال میں پنجاب پولیس کی کارکردگی اس حوالے سے بہت متاثر کن رہی کہ انھوں نے ماورائے قانون بہت سارے ٹارگٹ اچیو کیے جس کے صلے میں پنجاب پولیس ریاست کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھی۔ اس خصوصی کارکردگی پر پہلی بار دل کھول کر پولیس کو نوازا گیا۔ ہر سطح پر ترقیاں دی گئیں۔ پولیس نے نہ صرف پچھلے ایک دوسال میں تاریخ ساز دیہاڑیاں لگائیں بلکہ طاقت اور اختیارات کو بھی خوب انجوائے کیا۔ فورس کا اس حوالے سے مورال بھی کافی ہائی ہو چکا تھا لہذا اب پولیس والے بڑے بڑوں کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے تھے۔
بہاولنگر والے واقعہ کو عوام نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے پیرائے میں اپنی آہوں کا بدلہ قرار دیا۔ پولیس پر فنڈز بارش کی طرح نچھاور کیے گئے۔ تھانوں کو وی وی آئی پی بنا دیا گیا۔ جدید ٹیکنالوجی سے بھی آراستہ کیا گیا لیکن کے روایتی رویوں کی تبدیلی پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔ پولیس کلچر پون صدی پرانا ہی چل رہا ہے۔ جب تک پولیس کو عوام کا خدمت گزار نہیں بنایا جاتا اور پٹوار کلچر سے نجات نہیں دلوائی جاتی نہ کوئی تبدیلی آسکتی ہے نہ بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔
پندرہ بیس سال قبل جب الیکٹرانک میڈیا عروج پکڑ رہا تھا تو ٹاک شو عوام کے پسندیدہ پروگرام تھے کیونکہ پہلی بار عوام اینکر کے ہاتھوں اپنے ایم این اے، ایم پی اے وزیروں ،چوہدریوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور حکمران طبقہ کی تذلیل ہوتے دیکھ کر اور جوابدہ پاکر خوش ہوتے تھے۔
اسی طرح جب وکلاء تحریک کے نتیجے میں وکلاء اتنے طاقتور ہو گئے کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ کوئی ریاستی ادارہ ہمیں نہیں پوچھ سکتا اور پولیس والے تو بیچارے عدالتوں میں جانے سے گھبراتے تھے کیونکہ وکلاء دستی حساب چکانے پر آگئے تھے۔ پاکستان میں کبھی عدلیہ بہت طاقتور ہو جاتی ہے، کبھی میڈیا، کبھی پولیس۔ دراصل ان سارے معاملات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں جس کسی کے پاس بھی اختیار ہوتا ہے وہ اعتدال میں نہیں رہتا۔ وہ اپنے اختیارات کا من چاہا استعمال کرتا ہے۔ اسے اختیارات ہضم ہی نہیں ہوتے، اسے اپھارا ہو جاتا ہے اور پھر اس طرح کے حادثات جنم لیتے ہیں جیسا بہاولنگر میں ہوا ہے۔ جب تک معاشرے کے تمام شعبے اپنی اپنی حدود وقیود میں رہ کر آئین اور قانون کے مطابق پرفارم نہیں کرتے اس وقت تک ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ جب ہم کسی خاص مقصد کے لیے اصولوں اور ضابطوں کے برعکس کسی ادارے، شخصیت ،فرد یا اہلکار کو استعمال کرتے ہیں تو وہ دس اپنے ناجائز کام بھی کر گزرتا ہے۔ اگر ہم معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ اکھڑ چکا ہے جس کا زور چلتا ہے وہ اپنی من مرضی کرتا ہے اب آپ کی مرضی ہے کہ پاکستان کو ایسے ہی چلانا ہے یا کسی سسٹم کے تحت۔ جواب ضرور تلاش کیجیے گا۔
٭…٭…٭