ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
معروف ادیب اور مزاح نگار شفیق الرحمن کی ’’ادبی دنیا‘‘ کے ننھے کردار اکثر اوقات جھیل کے آباد کنارے پر بیٹھ کر دوسرے کنارے کے بارے میں خیال آرائیاں کیا کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے دوسرا کنارا بہت حسین، پھولوں اور پھلوں سے لدا پھندا تھا۔ وہ جاگتے میں یہ خواب مزید دیکھتے رہتے کہ ایک روز ان کے گھر کے ملازم نے،جس کا نام رستم تھا، یہ سب سْن لیا اور انہیں مخاطب کرتے کہا کہ ’’ایک کنارے پر بیٹھ کر دوسرے کنارے اکثر حسین ہی لگتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کنارا اس کنارے سے بھی کہیں زیادہ ویران ہے، میں اکثر وہاں گیا ہوں اور جب بھی گیا ہوں وہاں ویرانی کے سوا کچھ نہیں پایا۔‘‘
ملازم رستم کی باتوں نے ننھے کرداروں کا دل دوسرے کنارے سے اس قدر کھٹا کر دیا کہ اس کے بعد انہوں نے وہاں جانے کے منصوبے بنانا تو در کنار اس کے بارے میں بات بھی کرنا چھوڑ دی۔
مشینوں اور ٹیکنالوجی پر یہ اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے کہ وہ ہمارے مسائل حل کرے گی۔ آٹو میشن جس نے مزدوروں سے ریلیف کا وعدہ کیا تھا بہت سی نوکریاں کھاتی چلی جا رہی ہے۔ ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مراد ایک ایسا ذریعہ لیا تھا جو ہمیں روایتی اتھارٹی سے نجات دلائے گی بلکہ اظہار رائے کو مضبوط کرے گی۔ اس نے ہماری پرائیویٹ زندگی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ ہر شخص جو اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے وہ مانیٹرنگ کے زبردست حصار میں ہے۔ روسو نے کہا تھاکہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا، لیکن ہر طرف زنجیروں میں جکڑا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ لگ بھگ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بگ ڈیٹا نے ہمارا بھی یہی حال کر دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے زبردست وارننگ شاٹس چھوڑے جا رہے ہیں اور انتباہ کئے جا رہے ہیں لیکن انسان ہے کہ اسطوریاتی کردار ’’ڈائیڈیلس‘‘ کے بیٹے ’’آئی کارس‘‘ کی طرح قید سے آزاد ہونے کی خواہش میں اْڑتا ہوا سورج کے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ سورج کی تمازت سے کسی روز اپنے پر بھی جلا بیٹھے اور اپنے ہی بنائے مصنوعی ذہانت کے سمندر میں جا گرے۔
گوگل کے ساتھ طویل مدت تک کام کرنے والے مصطفی سلیمان کتاب(The Comming Wave) ) میں کہتے ہیں کہ ’’ہم جلد ہی مصنوعی ذہانت میں گھرے ہوئے ہونگے۔ ہماری زندگیوں کے فیصلے وہی کرے گی۔ ہمارے کاروبار سنبھالے گی اور اہم حکومتی کام بھی سرانجام دے گی۔ ہم ڈی این اے، پرنٹرز اور کوانٹم کمپیوٹرز، مصنوعی جرثوموں اور ’’خودمختار‘‘ ہتھیاروں کی دنیا میں سانس لینے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ دور انسانی صلاحیت میں تبدیلی سے کم کا دور ہرگز نہیں ہوگا۔ کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار معروف امریکی ڈپلومیٹ اور سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر اپنی کتاب (The Rise Of Ai) میں کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’الفا زیرو‘‘ کمپیوٹر نے چند برس قبل اپنے ساتھی کمپیوٹر کو شطرنج کی بازی میں مات دیدی اور اس دوران ایسی چالیں بھی چلیں جو انسان نے اسے کبھی سکھائی ہی نہ تھیں اور عالم یہ ہے کہ 2017ء سے لے کر اب تک ’’الفا زیرو‘‘ کو کوئی انسان شکست نہیں دے سکا یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ مصنوعی ذہانت نے خود سے سوچنا اور اپنے فیصلے آپ کرنے کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔‘‘ جلتی پر تیل کا کام ایلون مسک کے حالیہ بیان نے کیا ہے کہ ’’ممکن ہے مصنوعی ذہانت انسان پر قابو پا لے لیکن پھر بھی اسے چھوڑا نہیں جا سکتا بلکہ اپنانا ایک مجبوری بن گیا ہے۔‘‘ یہ قصے بیس تیس سال قبل کی جیمز کیمرون کی فلم سیریز ’’ٹرمینیٹر‘‘ سے نہیں بلکہ حقیقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی ہم سینما گھر میں بیٹھے ہیں کہ اچھے سین پر تالی بجائیں اور فلم ختم ہونے پر اپنے اپنے گھروں کو چل دیں گے۔
جیتی جاگتی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یا جو ہونے جا رہا ہے وہ بہت دل دہلا دینے والا ہے۔ دنیا کے پڑھے لکھے ملکوں میں اس پر بحث میں سائنسدانوں کے علاوہ پالیسی میکرز اور انسانی علوم کے ماہرین بھی بڑی شدت سے شریک ہیں۔ ان میں سے ایک یوول نوح ہراری بھی ہیں جو اس بات پر بہت زیادہ متفکر دکھائی دیتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے فروغ اور ترقی پر تو دنیا بھر میں اربوں ڈالر سالانہ خرچ کئے جارہے ہیں جبکہ انسانی ذہانت کی ترقی اور صلاحیت میں اضافے کے لئے اس کا سواں حصہ بھی صرف نہیں کیا جا رہا بلکہ اس پر مستزادیہ کہ جو ادارے (بشمول بڑے بڑے تعلیمی ادارے) انسانی صلاحیتوں میں اضافے کے ذمہ دار ہیں وہ بھی درحقیقت مصنوعی ذہانت پر ہی انحصار بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ ان حالات میں ایسا نہ ہو کہ انسان مصنوعی ذہانت کا غلام بن کر رہ جائے اور ہماری مثال ان بھینسوں جیسی ہو جائے جو دودھ تو زیادہ دیتی ہوں لیکن ذہنی اعتبار سے اپنی آباؤاجداد بھینسوں سے کمزور ہوں۔
اب اس سارے معاملے کو عام فہم انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ انسان نے مصنوعی ذہانت کو محبوب کی آغوش سمجھ کر اپنے آپ کو بالکل اس کے سپرد کردیا ہے۔ چند برس پہلے کی بات ہے کہ ہمیں درجن بھر فون نمبر تو ضرور ازبر رہا کرتے تھے لیکن اب ’’نامرادی کا یہ عالم ہے کہ ‘‘ بعض اوقات اپنا نمبر دیکھنے کے لئے بھی موبائل فون ڈیٹا کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ الٰہ دین کے چراغ کے جن سے لے کر روبوٹ تک ہماری خواہش رہتی ہے کہ کچھ ایسا مل جائے تو ہمیں بہلانے پھسلانے اور لوریاں سنانے سے لے کر ہمارا ہر کام کر دے۔ ہمیں ہاتھ بھی نہ ہلانا پڑے اور سب کاج تمام شد۔
یہ تو ہیں ترقی یافتہ قوموں کی باتیں اور بحثیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں؟ پاکستان میں اس صورتحال کے حوالے سے کیا پالیسیاں بن رہی ہیں۔ ہماری عادت ہے کہ کوئی بحث شروع کی، معلومات جھاڑیں اور آخر میں کوئی حل نکالنے کی بجائے ہر غلطی کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی اور چلتے بنے۔ جی ہاں یہ بھی دیکھنا ہے کہ دیگر ارباب اختیار، یونیورسٹیاں اور پالیسی ساز اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں یا کیا سوچ رہے ہیں۔ وہ تو ایک بحث طلب معاملہ ہے لیکن ہمارا میڈیا بھی (جس کا کام اپنا وزن مسائل نہیں بلکہ حل کے پلڑے میں ڈالنے کا ہونا چاہئے) اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہا۔ (یہ کالم اس جذبہ کے تحت تحریر کیا گیا ہے کہ شاید اس سے ہمارے ملک میں بھی اس قسم کی بحثوں کا آغاز ہو سکے)۔ ہم دنیا سے الگ تھلگ سوچنے کے ماہر ہوتے جارہے ہیں۔ انفرادیت اچھی چیز ہے لیکن بالکل الگ تھلگ ہو جانا تشویش ناک ہوتا ہے۔
ہم مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کریں یہ بات نہ تو کوئی سمجھنے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی سمجھانے کے لئے۔ نتیجتاً ہم لوگ ماورائے حقیقت ایک ایسی گہری کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں کہ جہاں سے نکلنا محال ہو سکتا ہے۔ ہماری سوچ کے انداز ایسے منفرد ہوتے چلے جارہے ہیں کہ جن سے بات بات پر شگوفے، چٹکلے اور لطیفے پھوٹ رہے ہیں۔ اگر کوئی چیز ندارد ہے تو وہ حقیقت پسندی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریز نے برصغیر میں بڑے پیمانے پر لام بندی شروع کر دی آزادی کے متوالے ہونے کے دعویدار مقامی رہنماؤں نے بھی اس فوجی بھرتی کے لئے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایک شخص کے بیٹے کو بھی دھر لیا گیا۔ وہ حقے کے کش پر کش لگاتا متفکر بیٹھا تھا کہ اس کے بچپن کا دوست آگیا۔ اس نے اپنے دوست سے اداسی کا سبب پوچھا تو پہلے والے نے بتایا کہ آج میرے بیٹے شیدے کو بھی انگریز نے فوج میں بھرتی کر لیا ہے۔ اس پر دوسرا گویا ہوا کہ فکر کی کیا بات ہے تمہارا بھتیجا حمیدا بھی تو بھرتی ہو چکا ہے۔ خدا خیر کرے گا، چھوڑو فکر مندی اور حقہ پی... اس پر پہلے والا دوست بولا ’’یار نہیں یہ بات نہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہٹلر بہت اتھرا (منہ زور) ہے۔ ادھر شیدا بھی کم نہیں اگر دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا تو کیا ہوگا؟ بد قسمتی سے اس بزرگ کے سوچنے کا انداز ہمارے اردگرد وافر مقدار میں پایا جاتا ہے بلکہ چھایا ہوا ہے۔ مصطفی سلیمان نے یہ بھی لکھا ہے کہ دنیا اس تبدیلی کے لئے تیار نہیں۔ بھائی مصطفی ہمارا کیا ہوگا، ہم نے ابھی اس حوالے سے سوچنا بھی شروع نہیں کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دودھ دینے والی بھینسیں بھی نہ بن سکیں اور صرف باربرداری کے ہی کام آتے رہیں۔ بہرحال اقبال کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
٭٭٭