• news

پٹرولیم نرخوں میں پھر اضافہ! عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت بجلی شعبے کے حوالے سے اعلی سطح اجلاس کا پہلا دور اسلام آباد میں ہوا، اجلاس میں وفاقی وزراءاور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی.اجلاس کو بجلی کے شعبے کی موجودہ پیداوار اور ترسیلی نظام کے حوالے سے تفصیلات، حکومتی اقدامات اور تجاویز کے حوالے سے بریفنگ دی گئی،اجلاس کو بتایا گیا کہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے گا بلکہ صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت میں 2 روپے کمی ممکن ہوگی۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عام آدمی کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔مہنگے تیل پر چلنے والے بجلی کے منصوبوں کوقابل تجدید توانائی پر منتقل کرنا وقت کی ضرورت ہے،بجلی کی ترسیل کی استعداد میں اضافہ ناگزیر ہے،ونڈ ،پن بجلی اور شمسی توانائی کے منصوبوں کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے،حکومت بجلی چوری کی روک تھام کے لیے پرعزم ہے۔بجلی کی پیداوار کے لئے اگر ہم متبادل ذرائع استعمال کریں تو اربو ں ڈالر کے تیل کا درآمدی بل کم کیا جا سکتا ہے۔
کوئی بھی ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس ضرورت اور ضرورت مندوں کی استعداد کے مطابق انرجی دستیاب نہ ہو۔گیس اور پٹرول اپنی جگہ لیکن پاکستان میں انرجی کا سب سے بڑا ذریعہ بجلی ہے۔گیس اور پٹرول کے پاکستان میں محدود ذخائر ہیں لہٰذا دونوں خصوصی طور پر پٹرولیم کی درآمد پر وزیراعظم شہباز شریف کے بقول اربوں ڈالر صرف کرنا پڑتے ہیں۔ایک تو ہمارے ہاں بجلی ضرورت کے مطابق پیدا نہیں ہوتی دوسرے بجلی چوری ہوتی ہے اور ترسیلی نظام بھی بوسیدہ ہے۔اس حوالے سے بھی اجلاس میں بات کی گئی۔بتایا گیا کہ بجلی کے ترسیلی نظام کی بہت ہی بری حالت ہے، جس کی بہتری کے لیے جتنی بھی کوشش اور سرمایہ کاری کی جائے کم ہے، اسے درست کیے بغیر جتنی چاہیں بجلی پیدا کرلیں اگر ٹرانسمیشن نظام بہتر نہیں تو ساری سرمایہ کاری ضائع ہوجائے گی، اس کام کے لیے عالمی معیار کے کنسلٹنٹس کی خدمت حاصل کی جائیں۔
اجلاس کے دوران بہت سی تجاویز حکام کی طرف سے دی گئیں۔جمہوریت میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ نئے سیاسی چہرے سامنے آتے ہیں۔ وہ اپنے ایجنڈے پر عمل کررہے ہوتے ہیں کہ حکومت کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔نئی حکومت آتی ہے اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں لیکن ”حکام اور اعلی حکام“ اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ برآمدی کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے سے کتنا فائدہ ہو سکتا ہے اور ترسیلی نظام کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔یہ دونوں کام تو ”حکام اور اعلی حکام “ کی طرف سے اب تک ہو جانے چاہئیں تھے۔
وزیراعظم کی طرف سے کہا گیا کہ ہائیڈرو پاور کو آگے بڑھائیں،اس حوالے سے حکام کے پاس جو بھی تجاویز ہوں کالا باغ ڈیم اس حوالے سے بہترین آپشن ہو سکتا ہے۔ آج بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہو جائے تو دو ڈھائی سال میں اس کی تکمیل ہونے کے بعد پاکستان کی کافی حد تک سستی ترین بجلی کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔وافر اور سستی انرجی کے حصول کے لیے جیسا وزیراعظم کی طرف سے کہا گیا سولر، ہائیڈرو اور ونڈ انرجی کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ریاست کے کرنے کے کام ہیں جو اب تک ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا بہرحال کہیں نہ کہیں کوتاہی ہوئی جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اپریل 2022ءمیں بھی وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تھی اس موقع پر سخت فیصلوں کے حوالے سے کہا گیا کہ ہم سیاست کی بجائے ریاست کو بچا رہے ہیں۔قدرت کی طرف سے ایک بار پھر مسلم لیگ نون کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے۔جس طرح بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ 14 ماہ حکومت کے دوران جو سخت فیصلے کیے گئے تھے، جہاں وہ فیصلے چھوڑے گئے وہیں سے پھر شروع کر دیے گئے ہیں۔جس کی وجہ سے عوام کی مہنگائی سے دہری ہونے والی کمر سیدھی ہونے میں نہیں آرہی۔
گزشتہ روز پٹرولریم مصنوعات کے نرخوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا گیا۔اس کے باوجود کہ عالمی سطح پر پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ یہ کمی ایران اسرائیل میں ممکنہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہونے کے باعث ہوئی۔فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر مہینے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ عرصے بعد یہ ہوا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اپریل میں تین روپے 82 پیسے فی یونٹ کمی کی نوید سنائی گئی مگر گزشتہ روز نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں اضافے کا "مڑدہ جاں فرا " سنا کر صارفین کی سرشاری کی کیفیت کا فور کر دی۔
پٹرولیم کی درآمد کی مد میں سالانہ 27 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پٹرول اور گیس کے ذخائر محدود ہیں لیکن پاکستان ہی میں کئی بائیو ڈیزل بنانے کے منصوبے کام کر رہے ہیں جس کا معیار درآمدی ڈیزل سے کسی صورت کم نہیں ہے۔ ایسے منصوبے پرائیویٹ سیکٹر میں جاری ہیں اور ساری کی ساری پیداوار ایکسپورٹ کر دی جاتی ہے۔بائیو ڈیزل کی پروڈکشن اگر سرکاری سطح پر کی جائے تو پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کا بل خاطرخواہ کم ہو سکتا ہے۔ایران سے پاکستان میں پٹرول کی سمگلنگ ہوتی ہے اس سمگلنگ کو ریگولرائز کر لیا جائے تو پاکستان کو ایران سے سستا ترین تیل مل سکتا ہے۔ بہرحال یہ حکومتوں کے کرنے کے کام ہیں۔مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں زندہ درگور ہوئے عوام کو سر دست ریلیف چاہیے اس حوالے سے حکومت کو ہر صورت کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔عوام کے صبر پیمانہ لبریز ہو چکا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ حکومت کو بہر صورت اشرافیہ کے اخراجات میں کٹوتی کر کے عوام کو اتنا ریلیف دینا ہوگا کہ وہ مطمئن ہو جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن