پنجاب میں دہشت گردی کے چیلنجز اور ترقی کا سفر
دہشت گردی کے چیلنجزکا سامنا کرنے کے لیے ہم سب ایک پیج پر ہیں۔ ملکی بلکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور کورکمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضاکی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں صوبے میں دہشتگردوں کے نیٹ ورک کی بیخ کنی کیلئے جدوجہدمزید تیزتر کرنے کے عزم کا اظہارکیاگیا۔ اس اہم اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب، سینئر صوبائی وزیر، آئی جی پولیس پنجاب کے علاوہ سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عسکری حکام نے شرکت کی۔ بلاشبہ مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ 22ماہ اتحادی حکومت کے بعد اب 8فروری 2024ءکے پانچ سالہ منتخب جمہوری دور میں ماضی کی تلخیاںاور غلطیاں دفن کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور نازک ملکی معاشی و سلامتی کی صورتحال کے پیش ِ نظر سیاسی انتقام نہ لینے کی جو پالیسی اپنائی ہے، وہ دیگر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کیلئے قابل ِ تقلید ہے ۔
آج نہ جانے کیوں 1985 ءسے لیکر 1994ءتک پاکستان کا سنہری زمانہ میرے صحافتی ذہن کے دریچوں پردستک دے رہا ہے جب پٹرول کی قیمت 85روپے اور پیاز کی قیمت 60روپے، ڈالر کی قیمت بھی 80روپے کے لگ بھگ تھی، مہنگائی و بیروزگاری کا ناگ اس انداز میں پھنکار یں نہیں ماررہا تھا، جتنا آج 10برس سے عوام کی پسلیاں توڑ کر چیخیں نکلوارہا ہے۔ اس میں یقینا بہت سے عوامل کارفرما ہیں لیکن ایک بڑا سبب وہ سیاسی محاذ آرائی ہے جس کے سبب محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں دو تین سال سے زیادہ نہ چل سکیں اور یوں دس سال اسی پخ پخ میں ضائع ہوگئے اور پھر اگلے دس سال نائن الیون کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ لڑتے گزر گئے اور ڈالر، سونے اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ اور پھر اس سیاسی محاذآرائی اور دہشت گردی کی لہر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’چور چور‘کا ایک بیانیہ ابھرا اور آخری ہچکیاں لیتی ملکی معیشت کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ۔
آج مسلم لیگ کے قائد نواز شریف پیرانہ سالی اوربیماری کے باوجود ایک بار پھر اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور ہونہار بیٹی مریم نواز کے ساتھ ملکی معیشت کو دوبارہ تعمیروترقی کی کٹھن راہ پر ڈالنے کیلئے پر عزم اور ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ مصروفِ عمل ہوچکے ہیں جس کا ثبوت 2اپریل 2024ءکو وزیراعلیٰ مریم نواز اور نواز شریف کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایوب ریسرچ سنٹرکے قیام وایگری کلچر افسراور فیلڈاسسٹنٹ کی خالی اسامیوں پربھرتی کے پائلٹ پراجیکٹ کیلئے 500ملین روپے کے ایگری کلچر ریسرچ انڈوومنٹ فنڈ کی منظوری ہے جبکہ زرعی ریسرچ، بہتر کارکردگی اور گڈگورننس کیلئے محکمہ زراعت کے ذیلی اداروں کو باہم مربوط کرنے کیلئے فرٹیلائزر اور پیسٹی سائڈ ایکٹ میں ترامیم لانے کا فیصلہ کیا گیا، چار دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان جیسے زرعی ملک میں کوالٹی سیڈ کا نہ ہونا لمحہ¿ فکریہ ہے۔ ملک کو سی پیک راہداری، گوادر پورٹ، موٹروے، لیپ ٹاپ، ییلو کیب سکیموں کے ذریعے صنعتی ایمپائربنانے کی راہ پر گامزن کرنے والی صنعتکار شریف فیملی کا زراعت کی ترقی کی طرف توجہ کرنا ایک خوش آئند امر ہے۔اللہ کرے حالات سازگار رہیں اور وہ اپنے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں ۔ یقینا آج مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ اہم ترامیم کروانے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ آج اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کے پاس ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کی تلافی کرتے ہوئے ملکی مفاد میں باہمی تعاون وہم آہنگی کرکے ایک میثاقِ معیشت اور میثاق مفاہمت کو فروغ دینے کا سنہری موقع ہاتھ آیاہے جس پر مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی اور کئی دہائیوں سے جہالت، کرپشن، غربت کی نچلی لکیر سے بھی نیچے پستے عوام اپنے ان سیاستدانوں کو سلام پیش کرینگے۔ یقینا اس سے ہماری سیاست بھی بچے گی اور ریاست بھی ۔ آج مریم نواز طویل سیاسی جدوجہد اور قید و بند کی صعوبتیں سہنے کے بعد پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر براجمان ہوکر عوامی خدمت کے موروثی و تاریخی ریکارڈ ثبت کرنے جارہی ہےں اور ابتدائی 2ماہ میں ہی مریم نواز نے بے مثال ترقی کی مثالیں قائم کردی ہیں ۔
میرے سامنے 17مار چ 2024ءکا روزنامہ دی نیشن پڑا ہے جس کی ایک رپورٹ پاکستان کے روشن مستقبل کی نویدہے ۔ ادارہ¿ قومی شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2023-24ءکے پہلے 8ماہ کے دوران ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں 11.145ملین ڈالرکی آمدنی کے ساتھ 353.78 فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگر نواز شریف زراعت کو ترقی دینے کے پلان کو اسی طرح آگے لے کر کامیابی کے ساتھ ریاستی اداروں بالخصوص میڈیا، پاک فوج اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ایک پیج پر چلتے رہے تو زراعت کی یہ ترقی صنعت وحرفت کے ساتھ بالخصوص آئی ٹی انڈسٹری اور ہیلتھ انڈسٹری کی انقلابی پیش رفت کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔ آج عالمی طاقتوں کے ٹکراﺅ کے اس دور میں ہمیں سی پیک کوریڈورسے بڑھ کر کچھ سوچنا ہوگا تاکہ گزشتہ پانچ سال میں حد سے بڑھے ہوئے عالمی سودی قرضوں سے نجات پاکر وطنِ عزیز خودکفالت اور خودانحصاری کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔