غیر دانستگی کے باعث والدین مجرمانہ غفلت کے مرتکب
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
تاریخ پر نظر دوڑا ئیں تو 1365سے 1403 قبلِ مسیح کی جانے والی مصری کندہ کاری میں ایک مہنت نظر آ رہا ہے جس کے پاؤں مڑے ہوئے ہیں۔یہ علامت پولیو مرض کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس کے بعد جدید دور میں پولیو کی وبائیں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بننے والے شہروں کے نتیجے میں سامنے آئیں۔
نیویارک میں سن 1916 میں پہلی بار وباء کی صورت میں پولیو پھیلا اور اس دوران اس کے 9000 کیس سامنے آئے اور اس کے نتیجے میں 2343 اموات واقع ہوئیں۔امریکہ بھر میں 27000 کیس تھے اور 6000 اموات واقع ہوئیں جس کا بڑا شکار بچے تھے۔ ڈاکٹر فلپ ڈرنکر اور لوئی شا نے ’آئرن لنگ‘ یعنی آہنی پھیپھڑا کے نام سے مشین بنائی، جس کا مقصد ایسے افراد کی جان بچانا تھا جو نظامِ تنفس مفلوج ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھے۔ اکثر مریضوں کو اس میں دو ہفتے کے قریب وقت گزارنا پڑتا تھا مگر جو مستقل مفلوج ہو گئے تھے انھیں ساری زندگی اس میں گزارنی پڑتی تھی آج آئرن لنگ کا استعمال بالکل ختم ہو چکا ہے اور اس کی وجہ ویکسین اور جدید وینٹی لیٹر ہیں۔عالمی صحت کی تنظیم نے امریکہ کے خطے کو 1994 میں پولیو سے پاک قرار دیا جس میں آخری پولیو کا کیس مغربی بحرالکاہل کے خطے میں 1997 میں سامنے آیا۔ 2002 میں عالمی ادارہ صحت نے یورپی خطے کو پولیو سے پاک قرار دیا۔ البتہ پاکستان ان چار ممالک کی فہرست میں آج بھی موجود ہے جہاں پولیو مرض پایا جاتا ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہاں کے لوگوں میں پولیوویکسین سے متعلق پائی جانے والی افواہیں ہیں۔ ا ن افواہوں اور من گھڑت باتوں کی وجہ سے والدین اپنے بچوںکے ساتھ غیر دانستہ طور پرمجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔امریکہ اور یورپ میں پولیو کے خاتمے کی اہم وجہ عوام کا مثبت رویہ تھا ، اس رویے کی بناء پر وہاں کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوا۔
پاکستان کی حکومت بھی گزشتہ کئی سالوں سے ملک بھر میں تقریباہر دو ماہ بعد پولیو مہم کا آغاز کرتی ہے لیکن آگاہی کی کمی کے باعث کئی والدین اپنے بچوں کو ان قطروں سے محروم رکھتے ہیں۔ لاہور شہر میں گزشتہ تین سالو ں سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور اس کی وجہ یہاں درست آگاہی مہم ہے۔ نوائے وقت نے جب اس آگاہی پروگرام سے متعلق ڈسٹرکٹ کمیونیکیشن آفیسر محمد شیزاز سے بات کی توانھوں نے بتایا کہ اس وقت وہ یونیسیف کے پروگرام COMNET پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد لوگوں میں پولیو قطروں کی افادیت سے متعلق لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔
محمدشیراز نے کہا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے لاہور میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا اس کی اہم وجہ ڈور ٹو ڈور ہمار ی آگاہی مہم ہے۔ پولیو مہم کے دوران جو والدین بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے ہم ان تک پہنچنے کا پلان ترتیب دیتے ہیں۔پھر ان تک پہنچ کر ان کے خدشات دور کرنا ہمارا کام ہے۔
ہم جب لوگوں تک جاتے ہیں تو اکثر والدین بچوں کو چھپا دیتے ہیں ،کہتے ہیں کہ بچے نانی کے گھر گئے ہیں یا بچے سو رہے ہیں۔لوگ دروازے جلدی نہیں کھلتے خصوصا پوش ایریاز میں ہمارے ورکرز کو دروازہ کھلنے کے لیے پندرہ پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ہمارے لیے دروازے کھولے جائیں کیوں کہ ہم آپ کے بچوں کی بہتری کے لیے آئے ہیں۔
حال ہی میں بلوچستان میں دو کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ کیسز آگاہی میں کمی کے باعث سامنے آئے۔ہم نے لوگوں تک پہنچنے کے لیے کئی راستے اپنائے۔ مثلا ابھی رمضان میں لاہور کی اہم شاہراہ ایم ایم عالم پر ہم نے ایک عید سٹال لگایا جہاں چوڑیا ں ،مہندی لگانے اور بچوں کی تفریح کے مواقع تھے۔ تاکہ والدین اپنے بچوں کو وہاں لائیں تو ہم ان تک اپنا پیغام پہنچا سکیں۔ اس کے علاوہ سحری میں ڈھول کے تھاپ پر جگانے والے کئی حضرات کو پولیو سے متعلق پیغام سنانے کا مشن سونپا ۔ وہ لوگ لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی تلقین بھی کرتے۔
ہم ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جن کا خیال ہے کہ پولیو کے قطرے حلال نہیں ہیں، یا ان قطروں کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس ہم علماء کے فتوی جات لے کر جاتے ہیں جن میں صاف لکھا ہے کہ یہ قطرے مکمل طور پر حلال ہیں۔اس کے علاوہ ہم بچوں کے میڈیکل ٹیسٹ ایسے لوگوں کو دکھاتے ہیں تاکہ ان کی تسلی ہو کہ یہ قطرے بچوں کے لیے مضر صحت نہیںہیں۔
ایسے بھی والدین ہیں جو خوشی خوشی اپنے بچوں کو ہمارے پاس لاتے ہیں۔بھرپور تعاون اور اعتماد سے ہمارے ورکرز کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری پولیو ٹیم کو جانی خطرات کا سامنا ہوتا تھا لیکن اب ان کے ساتھ حفاظتی ٹیم موجود ہوتی ہے۔ عملے کی کمی نہیں ہے ہمیں۔ لوگ رضاکارانہ طور پر مہم کے ایام میں ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں جن کا یومیہ انھیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔
آخر میں محمد شیراز نے پیغام دیا کہ پولیو سے جان چھڑانی ہے تو ہمارے لیے دروازے کھولیں۔آپ کے تعاون سے ہی ہم اس بیماری کو مات دے سکتے ہیں۔ زندگی بھر کی معذوری عزیز ہے یا پولیو کے یہ دو قطرے، یہ آپ نے سوچنا ہے۔ آپ کا بچہ آپ کے فیصلے کا مرہون منت ہے۔ اس کا مستقبل تاریک نہ ہو لہذا ہمارا ساتھ دیں۔ہمارے لیے دروازے کھولیں۔