سائفر کیس: 31 جنوی کو دفاع کا بیان ہوا تو 30 کو فیصلہ کیسے؟ چیف جسٹس
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سائفر کیس میں سزائوں کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ گزشتہ روز سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی وکلاء بیرسٹر سلمان صفدر، بیرسٹر تیمور ملک، ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد شاہ اور ذوالفقار عباس نقوی، شہر بانو قریشی، مہر بانو قریشی، عمر ایوب، بانی پی ٹی آئی کی بہنیں، کنول شوزب، بیرسٹر عمیر نیازی اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد شاہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی تین لوگوں کے ساتھ ایک آڈیو سامنے آئی، شاہ محمود قریشی، اعظم خان اور اسد عمر بھی گفتگو میں شامل ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ان چار افراد کی آڈیو ٹیپ کی رپورٹ ریکارڈ پر لایا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے آڈیو ٹیپ ملا جو سائفر پر گفتگو کررہے تھے۔ اس آڈیو میں کہا گیا کہ سائفر پر کھیلا جائے گا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایف آئی اے میں انکوائری رجسٹر ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت خارجہ کی بجائے وزارت داخلہ مدعی کیوں تھی؟۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اس نکتے پر بہت زور دیا ہے۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ میں آگے چل کر اس متعلق عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سلمان صفدر نے کہا تھا کہ ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ہم پہلے سے انکوائری کر رہے تھے، حامد علی شاہ نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ نسیم کھوکھر کی شکایت کے بعد انکوائری شروع کی گئی، 13 اکتوبر 2022 کو سیکرٹری داخلہ کی شکایت آئی تھی کہ مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کی جائیں، انکوائری میں معلوم ہوا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن فائیو کی خلاف ورزی کی گئی، وزرات قانون نے دو نوٹیفکیشن جاری کئے جس کے مطابق جیل ٹرائل ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل نوٹیفکیشن کے مطابق ہوتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جج کی تعیناتی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بعد کی جاتی ہے آپ نے ایسا کیا تھا؟۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ ہاں جی اس طرح سے کیا تھا‘ ریکارڈ ہوتا ہے جن پر ملزمان دستخط نہیں کرتے، 30 جنوری 2024ء کو گواہوں پر جرح مکمل ہوئی، 31 جنوری کو ملزمان کا دفاع کا بیان مکمل ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیصلہ کب ہوا؟۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ 30 جنوری کو ہی فیصلہ سنایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 31 جنوری کو دفاع کا بیان ہوا تو 30 کو فیصلہ کیسے ہوا؟۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے اپنے وکلاء اور ایڈووکیٹ جنرل کی طرف سے مقرر کردہ وکلاء کا تقابلی جائزہ بہت ضروری ہے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کی غیر موجودگی کی وجہ سے سٹیٹ کونسل مقرر ہوئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکالت نامے کن وکلا کے دئیے گئے۔ قبل ازیں بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے ، یہ ایک ایسا عجیب و غریب کیس ہے کہ کسی بھی گواہ نے کچھ ثابت نہیں کیا، شواہد کو دیکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ اعظم خان نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس پر یہ سزا ہوتی، مجھے کل محسوس ہوا کہ بینچ نے بہت عرصے بعد میری سوچ سے اتفاق کیا۔