پاکستان ‘ چین اور پاک سعودی فروغ پاتے مراسم
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور معاشی اشتراک کو مزید فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ پاکستان میں کام کرنیوالے چینی مہمانوں کی سکیورٹی کے معاملہ میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ گزشتہ روز شنگھائی الیکٹرک گروپ ”وول“ کے چیئرمین کی قیادت میں چین کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ چینی کمپنیاں ملک میں درآمد شدہ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے اور کوئلے کی کان کنی کے منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کریں۔ وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے وفد میں انڈس تھرکول بلاک ون پاور جنریشن کمپنی کے چیئرمین مینگ ڈونگھائی بھی شامل تھے جبکہ اس میٹنگ میں وفاقی وزراءاور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران بھی شریک ہوئے۔ وزیراعظم نے پاکستان کے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور معاشی اشتراک کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ حکومت پاکستان چینی سرمایہ کاروں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کریگی۔
دریں اثناءوزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاک سعودی تعلقات میں ہونیوالی پیشرفت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم نے سعودی وفد کے دورہ پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہمیں پاکستان کی ترقی کیلئے تیز رفتاری سے کام کرنا ہے جس میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی برداشت نہیں کی جائیگی۔ اجلاس میں وفاقی وزارت منصوبہ بندی کی سفارش پر فیڈرل پبلک پرائیویٹ پالیسی آف پاکستان 2023-28کی بھی منظوری دی گئی۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے معیشت کا پہیہ تیز کیا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ پاکستان کی برادر سعودی عرب اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ بے لوث دوستی اور باہمی تعاون کے پاکستان کی معیشت کے استحکام کیلئے ہی مثبت اثرات مرتب نہیں ہو رہے بلکہ ان تعلقات سے علاقائی امن و استحکام کے راستے بھی کھل رہے ہیں اور اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں اور دنیا میں پھیلنے والے جنگ و جدل کے رجحانات کی بنیاد پر پورے خطے اور اقوام عالم کو جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ پاکستان سعودی عرب اور پاکستان چین خوشگوار مراسم ان چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے میں بھی معاون بن سکتے ہیں۔ بے شک برصغیر اور جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے کے ممالک کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جنہیں مستحکم بنانے میں پاکستان چین ہمالیہ سے بلند‘ شہد سے میٹھی اور سمندروں سے گہری دوستی ایک ضرب المثال بن چکی ہے۔ اسی طرح برادر سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اورقطر بھی علاقائی امن و سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعاون اور مشترکہ مفادات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔
یقیناً ہر ملک کی قومی خارجہ پالیسی اسکے اپنے مفادات کے تناظر میں ہی مرتب ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر علاقائی اور عالمی سطح پر بین المملکتی مراسم کے راستے کھلتے ہیں۔ آج پاکستان اور چین کا اقتصادی راہداری کا مشترکہ منصوبہ جو اس وقت اپریشنل ہونے کے مراحل میں ہے‘ اس پورے خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ناطے سے خطے کے ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے بھی کھل رہے ہیں چنانچہ خطے کے ممالک کی برآمدات کو سی پیک کے ذریعے فروغ حاصل ہوگا تو اس کا براہ راست اور بالواسطہ پاکستان کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اب برادر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں چھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے راستے بھی ہموار ہو رہے ہیں تو آنے والا وقت پاکستان کے بہتر مستقبل اور اسکی معیشت کے استحکام کی نوید سناتا نظر آرہا ہے۔
اس خوشگوار فضا کو اپنے حق میں کیش کرانے کیلئے جہاں ہمیں اپنے مکار دشمن بھارت اور افغانستان جیسے بدخواہوں کے عزائم اور سازشوں پر کڑی نظر رکھنی ہے وہیں ہمیں اندرونی طور پر سسٹم کو مستحکم بنانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اندرونی اور بیرونی بدخواہ ملک کو انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیل کر ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ ساڑھے پانچ سال کا عرصہ ملک کے بدخواہوں کیلئے انتہائی سازگار ثابت ہوا جس کے دوران ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سی پیک کو سبوتاژ کرنے اور پاکستان چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئی جس نے اقتدار میں آکر بھی سی پیک کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا اور اس طرح اس خطے پر اپنی بالادستی کیلئے باہم گٹھ جوڑ کرنے والے امریکہ اور بھارت کو انکے سی پیک کے حوالے سے عزائم کو تقویت پہنچائی۔ اسی بنیاد پر بھارت نے براہ راست چین پر دباﺅ ڈال کر اسے سی پیک سے ہٹانے اور پاکستان کے ساتھ بدگمان کرنے کی کوشش کی جو چین نے بھارت کو یہ باور کراکے ناکام بنائی کہ یہ دو ممالک کا ذاتی معاملہ ہے اس لئے بھارت اپنے کام سے کام رکھے اور سی پیک میں ٹانگ نہ اڑائے۔ اسکے باوجود بھارت سی پیک کو سبوتاڑ کرنے کی سازشوں سے باز نہیں آیا اور سی پیک پر کام کرنیوالے چینی انجینئروں اور دوسرے چینی باشندوں کو گاہے بگاہے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر وہ پاکستان چین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دو ہفتے قبل بھی بھارت نے کابل انتظامیہ کی معاونت سے داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی بس پر خودکش حملہ کرایا جس میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں۔
چونکہ چین اور پاکستان دونوں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں ہیں اس لئے دونوں ممالک کے دفاع و سلامتی کے حوالے سے مفادات بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں چنانچہ پاکستان اور چین میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوئی بھی بھارتی سازش اب تک کامیاب نہیں ہو پائی۔ گزشتہ ساڑھے پانچ سال کے عرصہ میں ایسا ہی معاملہ پاک سعودی برادر تعلقات کے حوالے سے بھی درپیش رہا اور اس وقت کی برسر اقتدار پارٹی کے قائد عمران خان کے بطور وزیراعظم دورہ سعودی عرب کے دوران وزیراعظم کے باڈی لینگوئج کے ذریعے پاک سعودی مراسم میں کھٹائی پیدا ہوئی جس کا نئے حکمرانوں نے بمشکل تمام ازالہ کیا۔ چنانچہ اب سعودی عرب اور چین کے ساتھ اعتماد کی بحالی کیلئے بھی سرعت کے ساتھ مثبت پیش رفت ہو رہی ہے جس کی وزیراعظم شہبازشریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور چین کے ساتھ سفارتی سطح پر روابط میں تیزی لانے کی بنیاد پر راہ ہوار ہوئی ہے۔ آج یہی پارٹی اپوزیشن میں ہے جو دوسری حکومت مخالف پارٹیوں کو ساتھ ملا کر ملک میں افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کی فضا گرمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس فضا میں ہی بھارت جیسے دشمنوں اور افغانستان جیسے بدخواہوں کو دہشت گردی کے ذریعے ہمارے سسٹم کو کمزور کرنے اور ملک کی معیشت کی بنیادیں ہلانے کا موقع ملتا ہے۔ اس لئے آج ملک میں سیاسی استحکام کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اقتصادی استحکام کی منزل بھی سیاسی استحکام کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ قومی سیاسی‘ دینی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو ان درپیش چیلنجوں کے تناظر میں قومی تفکر کے ساتھ ایک مضبوط اور مربوط قومی پالیسی طے کرکے سسٹم کا استحکام یقینی بنانا چاہیے جو آج ہماری بنیادی ضرورت ہے۔