• news

ایران ، اسرائیل جنگ اور پاکستان

 اس میں نہ تو کوئی شک و شبہ ہے اور نہ ہونا چاہیے کہ پاکستان ایمانی اور سیاسی ہر سطح پر ہمیشہ سے فلسطین کے ساتھ تھا، ہے اور رہے گا۔ اور اس میں بھی کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسرائیل ہمیشہ سے پاکستان کا دشمن تھا، ہے اور رہے گا۔ پاکستان دشمنی میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی کسی سے کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ 
 اب آجاتے ہیں حماس اسرائیل جنگ کے اب تک کے نتائج پر۔ غزہ برباد ہوگیا، فلسطینی بچے یتیم ہوگئے ، ماﺅں کی گودیں اور بیویوں کے سہاگ اجڑ گئے۔ فلسطینی جوانوں کے لیے کفن ملنا مشکل ہوگئے تو فلسطین کی بیٹیوں کے لیے سر ڈھانپنے کے دوپٹے جلا دیے گئے اور کوئی اسرائیل کا بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ بھلا ہو ایران کا کہ اس نے غزہ پر بمباری کے جواب میں نہ سہی چلیں اپنے قونصلیٹ پر حملے کے جواب میں ہی سہی اسرائیل کو براہ راست ردعمل تو دیا۔ کسی بھی فیصلے اور عمل کے درست یا غلط ہونے کا صحیح معنوں میں پتہ اس کے نتائج دیکھ کر چلتا ہے۔ جس طرح آج غزہ کی بربادی اور فلسطینیوں کی حالت دیکھ کر ساری دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ حماس کا اسرائیل سے جنگ کو ٹرگر کرنا درست فیصلہ نہیں تھا۔ اسی طرح اسرائیل پر ایران کے براہ راست حملے کے نتائج سے ہی کچھ حتمی کہنا ممکن ہو سکے گا۔ 
 بین الاقوامی سیاست کے طالب علم اور عسکریہ تجزیہ کار کی حیثیت سےمجھے لگتا ہے کہ اسرائیل ایران کے اس حملے سے ایسا فائدہ اٹھا گیا ہے جو اب تک کے اس کرائسس میں امریکہ اور اسرائیل کے دیگر حلیف مل کے بھی اسے پہنچا نہیں سکے تھے۔ 
 غزہ پر بہیمانہ حملوں کے نتیجے میں رائے عامہ جس طرح اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں ابھری اس سے نہ صرف اسرائیل کے اندر شدید اور ذلت آمیز شکست کا احساس پیدا ہوا تھا بلکہ امریکہ سمیت اسرائیل کے دیگر تمام حلیف ممالک کے لیے اسرائیل کی طرف کھڑے ہونے پر اپنے اپنے عوام کو جواب دینا مشکل ہوگیا تھا۔ ہر دوسرے ترقی یافتہ ملک کی پارلیمان کے ممبرز نے روتے ہوئے معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کو بند کرنے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں پر دباﺅ ڈالا۔ لیکن ایران کے اسرائیل پر براہ راست حملے سے وہ تمام انگلیاں جو اسرائیل کی طرف اٹھی ہوئی تھیں ایک دم ایران کی طرف اٹھ گئیں۔ دنیا بھر کی توجہ غزہ کے مظلوم و مجبور عوام سے ہٹ کر اس نئے مدعے کی طرف مبذول ہوگئی اور ہر طرف ایک ہی سوال گونجنے لگا کہ کہیں تیسری جنگ ِ عظیم تو شروع نہیں ہونے جا رہی۔ گویا راتوں رات ٹیبل ہی الٹ گئی۔ اسی کو کہتے ہیں ففتھ جنریشن وار کہ مارو بھی اور مظلوم بھی بن جاو¿۔ اس نتیجے سے تو صاف لگتا ہے کہ ایران اسرائیل کے دام میں آ کے اس کی مرضی کے مطابق استعمال ہوا ہے۔ 
مسلمان بیچارے پچھلی دو صدیوں سے اتنے بےکس ہوچکے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی محض بڑھک بھی لگا دے تو سارے فخر سے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ کہیں بڑھک کے جواب میں گولی تو نہیں چل جائیگی۔ مجھے حیرت ہے کہ لوگ اب بھی نہیں سوچ رہے کہ جس ملک پر براہ راست تین سو مزائیلوں کا حملہ اس کا کچھ نہیں کرسکا پلاس سے تاریں کاٹ کر نہتے فلسطینی اس کے اندر ایک کرین، ایک گلائیڈر اور ایک موٹر سائیکل کے زریعے داخل کیسے ہوگئے۔ وہ بھی یوں کہ اتنی جدید وار ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک کو نہ پتہ چلا اور نہ ہی وہ کسی کو شہر میں داخل ہونے سے روک پایا۔ 
 ابھی تک کسی نے یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ یوکرین جنگ ابھی تک روکی کیوں نہیں جا سکی؟ اور یہ کہ حماس اسرائیل جنگ بجائے رکنے کے مزید پھیلتی کیوں جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ تو بہت واضح ہے کہ ان جنگوں کا فیصلہ کرنے والے پیچھے کہیں محفوظ بیٹھے ہیں اور ان میں مر فقط عوام رہے ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہیں دنیا کی آبادی کم کرنا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس پر منافع بھی کمایا جا سکے۔ یہ بہت کمال کے لوگ ہیں۔ پہلے آبادی بڑھانے پر منافع کماتے ہیں، پھر کم کرنے پر۔ 
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وار انڈسٹری تب ہی چلے گی جب جنگیں جاری رہیں گی۔ فرض کریں اگر دو ملکوں کے حکمرانوں کی جیب میں پیسہ جا رہا ہو تو ان بیچاروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ جاری رکھنا پڑتی ہے۔ 
چار دن میں ختم کرنے کے دعوو¿ں سمیت روس یوکرین جنگ جاری ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے خریدے گئے اسلحے کی کھیپیں کارخانوں سے نکل کر میدان جنگ میں کنزیوم کی جا رہی ہیں۔ یہی صورتحال مڈل ایسٹ میں بھی ڈویلپ ہوتی نظر آ رہی جس سے پورے خطے میں آگ لگنے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ 
وہ تو شکر ہے کہ پاکستان اندرونی و بیرونی دباو¿ کے باوجود خود کو اس آگ سے دور رکھنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ جنگوں کو روکنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے یوکرین کی طرح حماس فلسطین جنگ میں بھی دونوں فریقین پر اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو بار بار احساس دلایا ہے کہ فوری طور پر جنگ بند کی جائے اور اختلافات کو ٹیبل پر حل کیا جائے۔ 
 پاکستان نے مشکل کے اس لمحے میں فلسطینی بھائیوں کی سیاسی مدد کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت سے بڑھ کر لائف سیونگ مشنز میں حصہ لیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان سے غزہ بھیجا جانے والا خوراک، کپڑوں، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کا سامان کسی بھی دوسرے ملک کی طرف سے بھیجی گئی امداد سے کم نہیں تو یہ غلط بھی نہیں ہوگا۔ 
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عسکری قیادت نے پاکستان کو جنگ میں گھسیٹنے کی ہر اس کوشش کو ناکام بنایا ہے جو معیشت زدہ اس ملک کو تباہ کرنے کے لیے مسلسل کی گئیں۔ پہلے روس یوکرین جنگ میں پاکستان نے باقاعدہ اعلان کیا کہ ہم اس میں کسی بھی طرف سے فریق نہیں بنیں گے۔ پھر حماس اسرائیل جنگ میں پاکستان کی عسکری قیادت پہلے دن سے جنگ بندی کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں دونوں طرف کے فریقین کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے بار بار کردار ادا کرنے کی اپیلیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ 
دوسری طرف پاکستان نے افغانستان کی طرف سے کی جانے والی مسلسل شرارت اور ایران کی طرف سے فائر کیے جانے والے راکٹ کا منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ انہیں اس بات پر قائل بھی کیا کہ بات یہیں روک دی جائے اور بات بڑھائی نہ جائے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو تسلیم کرنا پڑا کہ پاکستان روس امریکہ تناو¿، امریکہ چائنا سرد جنگ کے ساتھ ساتھ ہر محاذ پر اپنی شاندار خارجہ پالیسی کے ساتھ تمام ممالک کے ساتھ توازن رکھتے ہوئے ان تمام تر مشکلات سے بچ نکلا ہے جن میں بھارت اسے گھرا ہوا دیکھنا چاہتا تھا ۔ بھارت اور دیگر پاکستان دشمن ممالک کی پوری کوشش تھی کہ حماس فلسطین جنگ میں پاکستان کے جذبات کو بھڑکا کر اسے اس جنگ میں آسانی سے جھونک کر برباد کیا جائے لیکن عسکری قیادت کی واضح امن پالیسی اور فلسطین کی بقاءکے لیے امن کوششوں کی حمکت عملی کے باعث انہیں شدید مایوسی ہو ئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن