نئی حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی
حالیہ ایک صدی کے دوران ورلڈ سپر پاور گیم میں کسی زمانہ میں برطانیہ چیمپین تھا اور پھر امریکہ بہادر اور روس میں رسہ کشی جاری رہی اور امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت روسی کیمونزم کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور پھر بھرپور مالی استبداد کی بدولت’’ رولنگ دا ورلڈ‘‘ کی پالیسی نے امریکہ کو سپر پاور بنا ڈالا لیکن متحدہ ہائے ریاست روس کو سپر پاور نہ بننے کا اتنا دکھ کبھی نہ تھا جتنا کہ روس کی متحدہ ریاستوں کی اکائیوں کا شیرازہ بکھرنے کا جس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا لیکن افغان جنگ میں معاشی تباہ حالی کے بعد جہاں اس نے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے پر بھرپور توجہ دی وہیں روس امریکی بیر میں کمی ممکن نہ ہو سکی اور ہر محاذ پر امریکی مخالفت روس کی اولین پالیسی رہی چین کے سپرپاور بننے کے امکانات روشن ہونے کے ساتھ ہی عالمی فورمز پر روس کا جھکاؤ اور طرفداری ہمیشہ چین کی جانب رہی جبکہ اس گریٹ گیم میں ترقی پذیر ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی متعین کرنے اور ان میں توازن رکھنے میں بہت مشکل درپیش اتی رہی ۔
بہرحال کیونکہ ہمیشہ دو بڑوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ کمزور کا ہی ہوتا ہے البتہ عالمگیری سیاست میں نئے چینی بلاک میں روس اور وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک کی غیر اعلانیہ شمولیت اور امریکی بلاک میں روایتی طور پر یورپی ممالک کے اعلانیہ اتحاد نے بین الاقوامی پاور گیم کو ایک نیا رخ دے ڈالا ہے اس بدلتے سیاسی منظر نے ہر پاکستانی حکومت کو الجھن میں ڈال رکھا جہاں امریکہ کو پاک چین دوستی پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے وہاں پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات و واقعات بھی پاک امریکہ تعلقات میں ایک خلیج کا کردار ادا کرنے کا موجب بنتے رہے ہیں جس کی بنا پر پاکستان کو عالمی سطح پر مختلف خارجی معاملات میں امریکی مخالفت کی بنا پر بہت سے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
دوسری طرف افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اور تعاون کا دورانیہ چار دہایئوں کے لگ بگ ہے جس کا آغاز روس کے خلاف پاکستان کے توسط افغان جہاد کی سپورٹ سے ہوا اور اختتام 2021 میںامریکی اور اس کے اتحادی فوجوں کا افغانستان سے انخلا سے ہو ا یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان آکر بیس سالوں تک ڈیرہ جمانے والے امریکہ بہادر کو طالبان کی بچھائی گئی دلدل سے بحافظت امریکہ روانہ کرنے میں بھی پاکستان کا ہی مرکزی کردار رہا ہے ۔
ماضی کی نسبت امریکی تعلقات کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایسا سفارتی ڈیڈ لاک لگا کہ تجربہ کار عالمی سیاسی مبصر بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور اس کی وجہ عمران خان نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد انے اور حکومت چھن جانے کے بعد سائفر کے نام پر امریکہ مخالف ایبسلوٹلی ناٹ کا من گھڑت بیانیہ تھا اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ پہلی بار پاک امریکہ تعلقات انتہائی بداعتمادی کا شکار ہوئے اور پھر وقت اور شواہد نے ثابت کیا کہ کس طرح بعض سیاستدان اپنی حکومتوں کو دوام بخشنے کے لیے ملکی خارجہ پالیسی کے آداب و قوانین کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے امریکہ دشمنی کا چورن بھی تحریک انصاف کی حکومت کو نہ بچا سکا جب کہ اس سے قبل عمران نیازی اپنے دور حکومت کے دوران ٹرمپ کی کال کو ترستے رہے مگر اپنے اناڑی پن اور سیاسی مکاری کی بدولت وہ امریکہ سے اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام رہے۔
ایک طرف عمران نیازی حکومت چھن جانے کے بعد امریکی سازش کا واویلا کرتے رہے تو دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے فرم ہائر کر کے لابنگ میں سرگرم رہے اور جس کا بہترین اثر اہل وطن کو آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کے بعد انہیں متنازع بنانا اور 31 امریکی کانگرس نمائندگان کا پاکستان کے انتخابات کے نتائج کے خلاف بل منظور کرنا تھا لیکن کانگرس کے مٹھی بھر ارکان امریکی ریاست کی سیاسی حکمت عملی پر حاوی نہیں ہو سکے اور بالآخر امریکی حکومت نے برائے نام تحفظات کے ساتھ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت تسلیم کرنے میں دیر نہ لگائی اور امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے جذبہ خیرسگالی کے تحت نے منتخب شدہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے نام لکھا جانے والا خط اور مریم نواز کے وزیراعلی منتخب ہونے پر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے پریس کانفرنس میں اسے ایک سنگ میل قرار دینا جہاں مسلم لیگ نون کی حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی و حکمت عملی کی آئینہ دار ہے وہاں تحریک انصاف اور اس کے حواریوں کی ملکی سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے کی ناکام اور ہٹ دھرم کوشش کا ثبوت ہے۔
پاکستان امریکہ کا ایک بہترین اتحادی رہا ہے اور ایسی امریکی پالیسیاں جو کہ نیو ورلڈ ارڈر کا حصہ بن گئی تھیں ان پر عمل درامدگی کی وجہ سے دہشت گردی کی ناسور کی شکل میں لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا مگر اسکے مقابلے میں امریکہ بہادر کا جھکاؤ ہمارے دشمن ملک بھارت کی طرف ہی رہا اور اس کی بنیادی وجہ بھارت کی وسیع مارکیٹ ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ ہر امریکی صدر نے بھارت کا دورہ کیا اور پاکستان میں جارج بش دوئم کے بعد اب دو دہائیاں ہونے کو ہیں کسی امریکی صدر نے پاکستان دورہ کرنا گوارا نہیں کیا چاہے وہ اوبامہ ہو ٹرمپ ہو یا پھر بائیڈن ہو اب یہ وقت ہے کہ نئی حکومت کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر امریکی صدر کو پاکستان کی آفیشل دعوت دینی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلقات کے نئے راستے کھل سکیں۔