پیر‘ 13 شوال 1445ھ ‘ 22 اپریل 2024ء
ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ جعلی حکومت نہیں چلنے دیں گے۔ فضل الرحمن
محسوس ہوتا ہے مولانا نے الیکشن میں عوامی حمایت سے محرومی یعنی شکست کو کچھ زیادہ ہی دل پر لے لیا ہے۔ اوپر سے اس بار ان کے نحرے اٹھانے والی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت حاصل کر لی ہے کہ انہیں مولانا کی چند نشستوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس کے باوجود انہوں نے کوشش کی ہے کہ مولانا کو راضی کیا جائے۔ کیوں کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ فارسی کے محاورے کے مطابق ’’مولوی ہرگز نہ شد چپ‘‘ مولانا کو خاموش کرانا ممکن نہیں۔ انہیں بہت لبھایا مگر وہ بے دردی ساجن کی طرح اب تک روٹھے روٹھے نظر آتے ہیں۔ اس لئے حکمرانوں نے بھی اپنے پرانی اتحادی کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی جس کے بعد اچانک مولانا نے مولا بجٹ کا روپ دھار لیا ہے۔ مگر فی الحال وہ اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن والوں کے ساتھ بھی نہیں مل رہے۔ شاید انہیں پی ٹی آئی والے بھی زیادہ گھاس نہیں ڈال رہے اور مولانا بھی ان کی بدزبانیوں کو دل سے نہیں بھلا پائے۔ یوں اب دیکھتے ہیں مولانا کی تنہا پرواز کہاں تک چلتی ہے۔
ہمارے ہاں سولو فلائٹ سے اکثر مواقع مس ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روز کے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے خدا جانے مولانا نے کونسے سیاسی فوائد حاصل کئے تاہم اس سے پی ٹی آئی والوں کو ہی فائدہ ہو گا کیونکہ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہمارے مولانا کے ساتھ معاملات طے ہو رہے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ اب مولانا ایکشن میں آ چکے ہیں۔ حکومت ہوشیار رہے‘ ایک طرف سے اپوزیشن اتحاد دوسری طرف سے جے یو آئی‘ تیسری طرف سے جماعت اسلامی حملہ آور ہونے کے لیے تیار ہے۔ یوں انجام کیا ہو گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ تاہم فضل الرحمن اس وقت غصے میں ہیں۔ شاید حکومت سے دوری ان سے برداشت نہیں ہو رہی…حکمران ہی ذرا نرم دلی سے کام لیں اور انہیں منا ہی لیں۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی کا وفد سعودی سفارت کاروں سے مل کر بیانات کی وضاحت یا معذرت کرے گا
اب یہ سعودی حکام پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ ویسے بھی پہاڑی بولی میں کہتے ہیں۔ ماڑی سی تے لڑی کیوں سی‘‘۔ اب معافیاں تلافیاں، معذرتیں، وضاحتیں یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو ہوا ‘برا ہوا۔ اردو میں کہتے ہیں نانی نے خصم کیا برا کیا‘ کر کے چھوڑا اور برا کیا۔ لگتا ہے جیل میں بند قیدی بھی اس پر خوب تلملا رہا ہو گا جو بذات خود سعودی شہزادے کے دورے میں بڑے فخر سے ان کے شوفر بنے اور خود گاڑی چلا کر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی راہ میں بچھ بچھ جاتے رہے۔ سب جانتے ہیں عرب حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ عرب ممالک نے ہمیشہ مشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے باوجود اگر کسی جماعت کے دوسرے درجہ کی قیادت سعودی عرب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بے لگام ہو جائے تو پھر خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ شیرافضل مروت کے نامعقول بیان سے بہت سے ماتھوں پر شکنیں پڑی صاف نظر آ رہی ہیں۔
قید ی نمبر804 نے بھی برا منایا مگر شیر افضل مروت باز نہیں آئے اور کہتے ہیںکہ وہ میرا ذاتی بیان تھا۔ مجھے میرے ذاتی بیانات سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شاید اسی لیے اب پی ٹی آئی کا وفد سعودی عرب کے سفیر سے مل کر ’’مٹی پائو‘‘ والی التجا کرے گا۔ مگر علم رکھنے والے جانتے ہیں‘ مانگنے کے عادی لوگوں کے وضاحتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اوپر سے پی ٹی آئی والے شیرافضل مروت کو شاہ سواری والا عربی گھوڑا بنا کر ہر جگہ اس کی رونمائی کرتے پھرتے ہیں جیسے وہ رستم دوراں ہیں اور قیدی بھی اس سے خوفزدہ ہے۔ شاید یہی زعم مروت کی شامت کا باعث بن سکتا ہے کہ وہ تو چیئرمین سے بھی اہم ہیں۔ انہیں یاد رکھنا ہو گا۔
’’میں اہم تھا یہی وہم تھا‘‘
٭٭٭٭٭
بھیک مانگنے کے لیے جگہ مختص نہیں کی جا سکتی۔ کراچی میں عدالت کا فیصلہ
یہ فیصلہ عدالت کو اس لیے دینا پڑا کہ کراچی جیسے غریب پرور اور بھکاریوں کی پرورش کرنے والے شہر میں دو صاحب حیثیت فقیروں میں علاقے کا تنازعہ چل رہا تھا جو کافی شدید ہو چکا تھا اور جب بات حد سے باہر ہونے لگی تو کسی عقلمند نے کسی فقیر کو مشورہ دیا کہ بھائی عدالتیں کھلی ہیں وہاں جا کر اپنے حق میں فیصلہ کرائو، آخر سیاسی جماعتیں بھی تو یہی کرتی پھرتی ہیں۔ بھکاری بھی کوئی عقل سلیم رکھنے والا تھا۔ اس نے ڈانگ اور سوٹوں سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بجائے عدالت کی راہ لی ۔یوں سانپ بھی مرا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ اب کسی اچھے نامور قانون دان یعنی وکیل کی مدد سے اس نے عدالت میں درخواست دائر کر دی کہ دوسرے بھکاری کے لیے کوئی اور علاقہ مختص کیا جائے۔ اسے میرے علاقے میں کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ گویا بھیک نہ ہوئی کوئی محنت مزدوری سے رزق حلال کمانے کا معاملہ ہوگیا۔
عدالت کے دونوں فریقوں کے وکیلوں کے بحث سننے کے بعد جو بھکاریوں سے ملنے والا بھیک کا پیسہ حلال کرنا چاہتے تھے‘ خوب جان لڑا رہے تھے کہ کیس جیت جائیں۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ وہ کسی بھکاری کو کسی خاص علاقے میں بھیک مانگنے سے نہ روک سکی ہے ‘نہ کہہ سکتی ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ اب کیا یہ وکیل اور بھکاری نہیں جانتے کہ بھیک مانگنا اسلام میں منع ہے اور ملکی قانون میں اس کی اجازت نہیں کہ جعلی لنگڑے لولے، اندھے معذور بن کر پھٹے پرانے گندے کپڑے پہن کر عورتوں اور بچوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر نوٹنکی رچائی جائے اور لوگوں سے زبردستی خیرات وصول کی جائے…مگر کیا یہ دو نمبر فقیر باز آتے ہیں۔ اب رمضان کے بعد بھی دیکھ لیںہر سڑک پر چوک پر تجارتی و کاروباری مرکز میں ان کا قبضہ ہے جو انہوں نے لاکھوں روپے کا ٹھیکہ دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ بھکاری خود بھی پوش علاقوں میں رہتے ہیں اور گاڑیوں پراپنے ا ڈوں پر بھیک مانگنے آتے ہیں۔
٭٭٭٭
دبئی میں پاکستان نے بھارت کو ہرا کر کراٹے چیمپئن شپ جیت لی
یہ شاندار مقابلہ دیکھنے کے لیے بہت دل بے چین تھا کیونکہ کھلاڑیوں کی تعارفی تقریب میں بھارتی کھلاڑی نے پاکستانی کھلاڑی کے ساتھ ماتھا ٹکرائی کرنے کے بعد انہیں دھکا دیا جس کا مسکت جواب پاکستان کنگ نے بروقت ایک زناٹے دار تھپڑ بھارتی کھلاڑی کے منہ پر مارتے ہوئے دیا جس پر منتظمین نے انہیں ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ یہ شاندار لمحات لاکھوں شائقین نے دیکھے۔ اس واقعہ کے بعد تو دبئی میں مقیم لاکھوں پاکستانی اور بھارتی مقابلوں کے شدت سے منتظر تھے۔ گزشتہ روز بالآخر یہ مقابلہ ہوا جس کو دیکھنے کے لیے بڑے بڑے نامور فلمی ستارے بھی موجود تھے جن میں سلمان خان بھی شامل تھے جو آج کل ایک جم کے افتتاح کے سلسلے میں دبئی آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کراٹے چیمپئن شاہ زیب کو جا کر مبارکباد دی اور اس کے ساتھ تصاویر بنائیں۔ اس موقع پر پاکستانی کھلاڑی نے امن سے محبت اور دوستی کے اظہار کے لیے پاکستان کے پرچم کے ساتھ جب بھارتی پرچم بھی اٹھایا تو بھارتی شائقین نے ان کو زبردست داد دی ۔یوں کراٹے کے عالمی چیمپئن نے ثابت کیا کہ پاکستان بڑے اور کھلے دل والے لوگ ہیں۔
کیا ایسی حرکت بھارتی کھلاڑی کرتا اگر وہ جیت جاتا ، نہیں کبھی نہیں۔ ایسا حوصلہ صرف پاکستانیوں کا ہے جو دشمن کو بھی گلے لگاتے ہیں۔ چاہے وہ ہارا ہوا کھلاڑی ہو یا جنگی جہاز والا ابھی نندن۔ بہرحال اس کامیابی کو بھی شاہ زیب نے اپنے وطن اور امن کے نام کیا۔ عالمی سطح پر ان کی جو پذیرائی ہو رہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ وہ ایک بہترین کھلاڑی ہی نہیں ایک بڑے انسان بھی ہیں ہر جگہ انہوں نے نیک نامی ہی کمائی اور اپنی مہارت اور بہادری کی دھاک بٹھائی ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں یہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے جس کی قومی سطح پر بھرپور پذیرائی کی جانی ضروری ہے تاکہ وہ تادیر چمکتا رہے۔
٭٭٭٭