گراں گوش حکمرانوں کیلئے آلہ سماعت
جنگل میں حکومت شیر کی ہو یا بندر کی، اقتدار ہمیشہ جبرو استحصال کی راہ چلتا ہے۔ وہ شہری آبادیاں بھی جنگل کا سماں پیش کرتی ہیں جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ جسٹس جاوید اقبال راوی ہیں: ’لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے دوران سماعت ایک حاضر سروس افسر کو ڈانٹا۔ان دنوں آرمی چیف جنرل ٹکا خاں نے جو بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل بھی ہو گئے۔ آرمی چیف نے بھٹو سے شکایت کی۔ بھٹو نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بلایا اور انہیں کہا ’’اپنے جج کو سنبھالئے۔ ہم ابھی جنگل میں رہتے ہیں‘‘۔ جج صاحب آرمی چیف کے حضور پہنچے۔ معافی تلافی ملنے پرداتا صاحب دیگیں بھی نذر نیازکیں‘۔
ہماری جمہوریت ایسی ویسی ہی ہے۔ مغرب والے ہمیں گلی ڈنڈے کو کرکٹ کے رولز کے مطابق کھیلنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک بوڑھے آدمی نے ایک ڈھابے میں سیپرٹSeperate چائے منگوائی۔ بیرا گاہک کا آرڈر نہ سمجھ سکا۔وہ مکس چائے لے آیا۔ وہ بزرگ مکس چائے دیکھ چونک کر بولے۔ ’’ارے!تم نے تومیرے سارے اختیار ہی ہتھیالئے۔ پہلے ہی میرے بس میں اورہے کیا؟ سوائے اس کے کہ چائے میں قہوہ، دودھ،شکر اپنی مرضی سے ڈال لوں۔تم نے تو مجھے اس سے بھی محروم کر دیاورنہ ووٹ میں کسی اور امیدوار کو دیتا ہوں، سرکار دربار سے کامیابی کا اعلان کسی دوسرے امیدوار کا ہو جاتا ہے‘‘۔ پچھلے دنوں ملک بھر میں فارم 45اور 47کی منڈی لگی رہی۔ ایوب دور میں ذو الفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں کشمیر پر ایک مجلس مذاکرہ سے خطاب کرنے آئے۔
ان دنوں برطانیہ میں مقیم معروف ادیب طارق علی لکھتے ہیں۔ ’’میں نے ان سے پوچھا: آپ مقبوضہ کشمیر میں جمہوری ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں۔ کوئی کشمیر کے بارے آپ کی بات سنجیدگی سے کیسے لے سکتا ہے؟ جبکہ سرے سے ہمارے ہاں جمہوریت ہی نہیں‘‘۔ ووٹوں کی طاقت سے قائم اس ملک میں جمہوریت ہمیشہ ایک مسئلہ ہی رہی۔ ہم بنیادی جمہوریت سے چل کر اسلامی جمہوریت کو بھگتتے ہوئے حقیقی جمہوریت تک آن کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں جہاں سے یہ شروع ہوئی تھی۔
اس نام کے جمہوری ملک میں ہم ہمیشہ جمہوریت کیلئے جدو جہد میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ صدر ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف سیاسی کارکن ایک تھکا دینے والی جدو جہد کے بعد انہیں ہٹانے میں ضرور کامیاب ہو تے رہے لیکن وہ جمہوریت پھر بھی نہ پا سکے۔ بیچاری جمہوریت تو ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی نہیں۔ وہاں بھی وہی ون مین شو ہے۔
پچھلے دنوں صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھٹو کی 45ویں برسی پر انکشاف کیا کہ اس ملک میں غربت اسلام آباد میں بیٹھے بابوؤں کی سوچ اور کم عقلی کے باعث ہے۔ کیا ایک سیاستدان کا بیوروکریسی پر لگایا گیا یہ الزام درست ہے؟ مسعود مفتی کا تعلق پاکستان کی بیوروکریسی سے ہے۔ وہ اردو کے ایک اہم لکھنے والے ہیں۔ اللہ جانے انہیں مختارمسعود اور قدرت اللہ شہاب جیسی مقبولیت اور قبولیت کیوں حاصل نہیں ہو سکی؟ انہوں نے اپنی آخری کتاب ’’دو مینار‘‘ میں بیوروکریسی کیخلاف لگائے گئے اس الزام کا مکمل جواب دیا ہے۔ وہ ایوبی مارشل لائکے آغاز کو قائد اعظم کی بیوروکریسی کی موت قرار دیتے ہیں۔ وہ ایوب خاں کے دور کی تمام ترقی کا اسی بیوروکریسی کو کریڈٹ دیتے ہیں۔ لیکن کالم نگار جب پاکستان کے اولین سالوں کی تاریخ پھرولتا ہے تو اسے 1951ء کے عام الیکشن میں 10 جاگیرداروں کی بلا مقابلہ کامیابی بہت کھٹکتی ہے۔ کیا یہ جمہوری بدچلنی بیوروکریسی سے گٹھ جوڑ کے بغیر ممکن تھی؟ یہ بھی مسعود مفتی سے پوچھنے کا سوال ہے۔ لیکن ان سے بھلا کون پوچھے۔ وہ تو بہشت بریں میں پہنچ چکے ہیں۔
انڈین کانگریس کے پٹیل نے آزادی کے بعد جاگیرداری کو مکمل ختم کرنے کا اعلان کر دیاتھا۔ آزادی کے بعد یہ اعلان محض اعلان نہ رہا۔ ہندوستان میں جاگیرداری ختم کر دی گئی۔جاگیرداروں نے اپنی جاگیروں کی حفاظت کیلئے ہی مسلم لیگ میں شمولیت کر کے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ پھر تو وہ بھی یہ نعرہ لگانے لگے۔’لے کے رہیں گے پاکستان‘ کیونکہ پاکستان میں ان کی جاگیروں کیلئے تحفظ موجود تھا۔ تاریخ نے اس تاریخی سچائی کو ثابت کر دیا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک جاگیرداری اپنی پوری شان و شوکت سے موجود ہے۔ پاکستان کے قیام کے بغیر ایسا بالکل ممکن نہ تھا۔
سید محمود جلال شاہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ سندھ دیش کی شہرت رکھنے والے جی ایم سید کے پوتے ہیں۔ ایک جاگیردار اول و آخر جاگیردار ہوتا ہے۔ اس کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا محور اپنی جاگیر کی حفاظت ہوتا ہے۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ سندھ میں جاگیرداری کے باعث عوام کی زندگی عذاب ہے۔ انکے مطابق حالات کی خرابی بری حکمرانی کے باعث ہے۔ سندھ کا ہاری سیاسی سسٹم کی وجہ سے عذاب میں ہے نہ کہ جاگیرداری کی وجہ سے۔ آصف زرداری بھی صرف اسلام آباد کے بابوؤ ں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
پچھلے ہی دنوں عید کے دوسرے روز مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں ایک شخص نے اپنے سات بیوی بچوں کو قتل کر کے خودکشی کر لی۔ علی پور میں ہر شخص اس سانحہ کی وجہ غربت اور بیروزگاری قرار د ے رہا ہے۔یہ واقعہ پاکستان کے حکمرانوں، اقتصادی پالیسی بنانے والوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس خبر کو اخبارات میں آخری صفحوں پر جگہ مل سکی۔
احمد فراز اسلام آباد میں اپنے ایک دوست سے ملنے گئے۔ وہ اپنے کان میں آلہ سماعت لگائے کتے کے ساتھ کھڑا تھا۔ احمد فراز کو آتا دیکھ کر کتے کو دور جانے کا کہنے لگا۔ لیکن کتا یہ سننے اور ماننے سے انکاری تھا۔ احمد فراز نے قریب پہنچ کر اسے اپنے کان میں اڑسا آلہ سماعت کتے کے کان میں ٹھونسنے کا مشورہ دیاتاکہ وہ اس کی بات سن سکے۔ ہمارے گراں گوش حکمرانوں کو اللہ جانے کیسا آلہ سماعت درکار ہے کہ عوام کا دکھ درد، آہ و زاری اور چیخیں ان کے کانوں تک پہنچ سکیں۔