قبر اقبال سے آ رہی ہے صدا
تقریبا ہر دوسری زبان پر شکوہ ہے کہ پاکستان میں حالات خراب ہیں ۔ جینا مشکل ہے۔خوش قسمتی سے آج کل ملک میں دانشوروں کی کمی نہیں اور ان کے مطابق بظاہر ریاست موجود ہونے ، آزاد قوم کی سند رکھنے کے باوجود قوم کی اکثریت کی آنکھیں بن بادل برسات کی صورت میں سامنے ہیں تو اسباب میں قیادت کا شکوہ اور لوٹ مار اور مثالی حکومتوں کی عدم موجودگی وغیرہ ہے ۔یہ تاثرات ایسے ملک کے باسیوں کے ہیں جن کو ماضی میں سیاست میں قائد اعظم اور دانش میں علامہ اقبال جیسے راہنما ملے۔ آج علامہ اقبال کی 86 ویں برسی پر ہم سب اس بات کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ عالم اسلام اور خود ہم اس حال کو جو پہنچے ہیں تو اس میں ہماری فکری راہنمائی میں کوئی کمی تھی یا ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ دیکھنا یہ چاہئیے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ اس لئے کہ شجر حیات کی جڑ ٹھیک نہ ہو اور دیوار کی پہلی اینٹ ٹھیک نہ ہو تو شجر بے فیض اور دیوار ٹیڑھی ہو کر بلند ہو گی اور گر جائے گی ۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا میں رود دیوار کج
آج اوپر عالم اسلام پارہ پارہ ہے اور ملک کے اندرقوم سیاست لسانیت صوبائیت اور فرقہ واریت کے کئی خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال نے ان دو بنیادی خرابیوں کا علاج تجویز کیا تھا ۔
ایک ہی سب کا نبی دین بھی قران بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
کیا پاکستان میں ہم نے عملا ان باتوں پردھیان دیا ؟ جواب ہے بڑی سی نہیں ۔ کیا ہمارا پورا معاشرہ ذات پات اونچ نیچ کی لعنت کا شکار نہییں ۔ کیا ہمارے دینی راہنمائوں نے فرقہ واریت کے خاتمے کی بجائے مزید فرقوں کی بنیادیں نہیں رکھیں ؟ علامہ اقبال نے فرمایا
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
ہم نے آزاد ی کے بعد اور قائد کی آنکھیں بند ہو جانے کے بعد گزشتہ 75 برسوں میں اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے خود آگاہی کا منشور کب اپنایا ؟ اگر نہیں تو ہم پر اسرار خود آگاہی کیسے کھلتے ہم دوسروں کی محتاجی اورغلامی سے کیسے نجات پاتے؟ ہمیں معاشی اقتصادی اور خارجی تعلقات کی فیصلہ سازی کی آزادی کیسے ملتی ۔علامہ اقبال نے فرمایا
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہم نے قرضوں کو رزق سمجھ کر اس کی عادت بنا لی ۔ ترقی کے آسمانوں کی طرف پرواز کیسے کرتے ۔نہ ہماری سیاست بے لوثی کا پرچم تھام کرعوام کی خدمت کرتی نظر آئی نہ ہماری دانش ذاتی مصلحتوں سے بالا ہو کر قلم و پرطاس کی وادی میں اتری ۔ہماری عدالتیں متنازعہ فیصلوںکی عبا اوڑھے ہیں ہمارے ادارے آہستہ آہستہ اپنا توازن کھونے اور اپنے مورچے چھوڑنے لگے ہیں ایسے میں ہمارا پاسپورٹ اگر اقوام عالم میں زیادہ اہمیت کا حامل نہ ٹھہرایا جائے تو گلہ کس سے ہو۔ ملکی سطح پر اگر حقیقت خرافات میں کھو چکی ہے تو اس کا ایک سبب گلوبل سطح پر امت مسلمہ کی قیادت کی اقتدار پرستی اور امت کے مجموعی مفاد کی گردن پر پائوں رکھ کر غیروں کی تابع فرمانی کی پالیسی ہے۔علامہ اقبال نے گزشتہ صدی کے آغاز میںامت کی علامتی سپر پاور خلافت عثمانیہ کے خلاف افرنگ کی انہی چالوں کے پیش نظر بانگ درا کی نظر خضر راہ میں فرمایا تھا ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
علامہ نبی آخر الزمانﷺ کی سیرت کی پیروی میں بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جانے کی تلقین کرتے رہے۔انہوں نے تو ضرب کلیم میں شامل اپنی نظم جمعیت اقوام مشرق میںمسلمانوں کی اپنی جمعیت کا خاکہ بھی یہ کہہ کر پیش کیا کہ
طہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا
شائد کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
مگر ہم اپنے اپنے فرقوں کے کوتاہ نظر قائدین کے جال میں پھنس کر حالیہ مشرق وسطی کے تنازعہ اور اس میں لہوکی روانی کو بھی تعصب اور فرقہ واریت کے چشمے سے دیکھ دیکھ کر سوشل میڈیا پر حاضری لگوا رہے ہیں۔مغرب عالم اسلام کو devide and rule کی پالیسی اپنا کر اپنے تابع مہمل بنا کر رکھانا چاہتا ہے ۔ بر صغیرمیں صرف چند ہزار برطانوی لشکریوںد کے ڈریعے سو سال سے زیادہ براہ راست اور اسکے بعد اب تک بالواسطہ اس فارمولے کے تحت ان کی حکومت ہے۔ سونے کی چڑیا کہلوانے والا خطہ آج اپنے قرضے اتارنے کیلئے بھی مزید قرضے لے کر پھولا نہیں سماتا ۔یہ سب کچھ اس باعث ہے کہ نہ ہم نے جمہوریت اورعوامی نمائیندہ حکومت کے حوالے سے قائد اعظم کے اصولوں اور سیاست کی پیروی کی اور نہ مصور پاکستان علامہ اقبال کے فرمودات پر عمل کیا ۔جب معاشرتی ڈھانچہ ہی صحت مند نہ ہو تو پھر وہی حال ہوتا ہے جو اوپر کی سطح پر عالم اسلام کا ہے اور نیچے کی سطح پر پاکستانی عوام کا ہے کہ سارے وسائل کے باوجود صرف دو فی صد موج مستی میں ہیں اور اٹھانوے فی صد انصاف روٹی روزگار اور بچوں کی اچھی تعلیم اور صحت اور بہتر مستقبل کا اچھا خواب دیکھے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔جی کرتا ہے کہ جیسے امرتا پریتم نے 1947 میں انسانیت کا ماتم کرتے ہوئے یہ کہ کر وارث شاہ کو یاد کیا تھا ۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں کدرے قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
میں بھی علامہ اقبال کو آج کی صورت حال بیان کرنے کیلئے سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں مشیر کاظمی کی زبان میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یاد کروں کہ :
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا یہ وطن مجھ کو ایسا گوارا نہیں
٭…٭…٭