ضمنی انتخابات، مقبولیت کہاں گئی؟
ضمنی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ بہت کچھ ہو چکا ہے اور بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں۔ 8فروری کا انقلاب کہاں گیا؟ کیا مقبولیت کا بخار اتر گیا ہے؟ کیا حکومت نے دو ماہ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں ہیں جس سے ہر سو حکومت کی بلے بلے ہو رہی ہے۔ اگر ضمنی انتخابات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ڈیرہ اسماعیل خان وزیر اعلی خیبر پختون خواہ کی قومی اسمبلی کی چھوڑی گئی نشست پر ان کے بھائی کی کامیابی کے سوا تحریک انصاف کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ خیبر پختون خواہ کے علاقہ باجوڑ سے اپنی خالی کردہ نشست پر بھی تحریک انصاف شکست کھا گئی۔
خیبر پختون خواہ سے ایک قومی اور ایک صوبائی نشست بچا سکی باقی پورے پاکستان میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے امیدواروں نے بھاری مارجن سے کامیابی سمیٹ لی ہے۔ صرف بھکر کی نشست پر مقابلہ نظر آیا جہاں مسلم لیگ ن کے اکبر نوانی نے تین ہزار کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ورنہ باقی حلقوں میں تو مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا۔ لاہور میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار علی پرویز ملک نے 25 ہزار کی لیڈ سے فتح حاصل کی ہے حالانکہ 8فروری کو ہونے والے الیکشن میں خود مریم نواز اتنی لیڈ حاصل نہیں کر پائی تھیں۔ قصور سے میاں شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک رشید نے تحریک انصاف کے محمد حسین ڈوگر کو 56 ہزار کی لیڈ سے ہرایا ہے۔ گجرات میں چوہدری پرویز الہی جیسا منجھا ہوا سیاستدان اپنے بھتیجے موسی الہی سے 45 ہزار کی لیڈ سے ہار گیا ہے۔ وزیر آباد میں تحریک انصاف اپنی جیتی ہوئی نشست بھی نہیں بچا پائی۔ ن لیگ کے عدنان افضل چھٹہ نے تحریک انصاف کے فیاض چھٹہ کو 16 ہزار کے فرق سے پچھاڑ دیا ہے۔ نارووال میں احمد اقبال نے تحریک انصاف کے امیدوار اویس قاسم کو ساڑھے 13 ہزار کے مارجن سے شکست دی ہے۔
شیخوپورہ میں ن لیگی امیدوار رانا افضال نے تحریک انصاف کے امیدوار اعجاز حسین بھٹی کو ساڑھے 16 ہزار کے مارجن سے ہرایا ہے۔ لاہور میں مسلم لیگی امیدوار ملک ریاض نے حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست پر تحریک انصاف کے محمد خان مدنی کو 15 ہزار کی لیڈ سے ہرایا ہے۔ پی پی 158 چوہدری نواز نے تحریک انصاف کے چوہدری مونس الہی کو 12 ہزار کی لیڈسے شکست دی ہے۔ راشد منہاس نے پی پی 164 میں یوسف میو کو 5ہزار سے ہرایا ہے۔ پی پی 149 میں استحکام پاکستان پارٹی کے شعیب صدیقی نے اپنے لیڈر علیم خان کی خالی کردہ نشست پر ذیشان رشید کو 14 ہزار کے فرق سے ہرایا ہے۔ چکوال میں ن لیگی امیدوار فلک شیر نے نثار احمد کو 8 ہزار سے شکست دی ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں ن لیگی امیدوار علی احمد لغاری نے آزاد امیدوار محی الدین کو 38 ہزار کی لیڈ سے شکست سے دوچار کیا ہے۔
ضمنی الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پرفارمنس حیران کن ہے حالانکہ ن لیگ کےموجودہ مختصر دور حکومت میں چکن 8سو روپے کلو تک جا پہنچا۔ ٹماٹر، پیاز قوت خرید سے باہر ہیں۔ پٹرول 300 روپے لیٹر کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ بجلی گیس اور ذرائع نقل وحمل کئی گنا مہنگے ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود پنجاب کے عوام نے ن لیگ کو ریکارڈ کامیابی سے نوازا ہے جس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی مقبولیت کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے۔ جو 8فروری کو خاموش انقلاب کی باتیں کر رہے تھے وہ خاموش انقلاب کہاں گیا۔ کیا تحریک انصاف کی مقبولیت دم توڑ گئی ہے؟۔ لگتا ہے تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو گیا ہے۔ مجموعی طور پر 8فروری کے انتخابات میں عوام کا جوش وخروش زیادہ تھا۔
21 اپریل کو ضمنی الیکشن میں ٹرن آوٹ بھی کم رہا اور لوگوں نے مایوسی کا بھی اظہار کیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ انتخابی نتائج ان کے فیصلوں کے برعکس تھے اس لیے ان کا ووٹ ڈالنا یا نہ ڈالنا بے معنی ہے اس لیے لوگ کم تعداد میں باہر نکلے۔ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ عام انتخابات میں پتہ نہیں ہوتا کہ کس کی حکومت بنے گئی اس لیے لوگ کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومتی امیدوار پر احسان کیا جائے وہ کم از کم ان کے کام تو آسکتا ہے۔
تیسرا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ ضمنی الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ کسی کی ہار اور کسی کی جیت کے ہزار پہلو ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ان نتائج کا حکومت کو فائدہ پہنچا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کو توڑنے پارٹی میں مایوسی پھیلانے، کنفیوژن پیدا کرنے کے نئے پراجیکٹ پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ماضی میں کراچی میں ایم کیو ایم کے حصے بخرے کرنے والے پراجیکٹ کے کرتا دھرتا جو کہ اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ان کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں لہذا ایک طرف تحریک انصاف کو بات چیت کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے، دوسری جانب پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں واضح کی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگوں میں ہوا بھر کر انھیں نئی لیڈر شپ کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔ حکمت کاروں کو یقین ہے کہ وہ مقبولیت پر قابو پا لیں گے۔ دیکھیں اور انتظار کریں کہ عوام کے اعصاب اور انتظامی حربوں کی چپقلش کہاں جا کر رکتی ہے۔
٭....٭....٭