سعودی وفد کا دورہ پاکستان اور عمران کی ہاہاکار
سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خصوصی ہدایت پر سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کی زیرقیادت ایک اعلیٰ اختیاراتی سعودی وفد کا دورہ پاکستان ، پاک سعودیہ سرمایہ کاری اور تجارتی اسٹریٹجک شرکت داری کے نئے دور کا آغاز ہے ۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے حکومتی و نجی سطح پر سعودی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی تکمیل کی خود نگرانی کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ سعودی عرب کے معاون وزیر دفاع میجر جنرل طلال بن عبداللہ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اسلام آباد میں خصوصی ملاقات کے دوران پاک سعودیہ دفاعی تربیت سمیت مختلف دفاعی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے مشترکہ باہمی امور پر اتفاق رائے کیا گیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ سعودی وفد میں وزیرماحولیات وآبی وسائل و زراعت، وزیر صنعت و معدنی وسائل ، معاون وزیر سرمایہ کاری، سعودی خصوصی کمیٹی کے سربراہ، وزارت توانائی اور سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈاور سفارتی حکام شامل تھے۔سعودی وفد کے ارکان نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایوان صدر میں صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاﺅس میں ایک عشائیہ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے علاوہ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اور وفاقی کابینہ کے متعلقہ وزراءسے ملاقاتیں بھی کیں ۔ اس موقع پر سعودی وزراءکو بریفنگ دی گئی اور پی آئی اے ، ائیرپورٹس کی نجکاری ، اسلام آباد میں دو فائیوسٹار ہوٹلز میں جوائنٹ وینچر ، مٹیاری ٹرانسمیشن لائن اور فرسٹ ویمن بینک ، سولرپراجیکٹس ، کان کن پراجیکٹس اور ہیلتھ سٹی بنانے کی پیشکشیں کی گئی۔
مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، سعودی وزیرخارجہ نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان پائیدار اور سٹریٹجک نوعیت کے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے نئے راستے تلاش کرنے پر زور دیا اور آرمی چیف نے سعودی وسیع البنیاد اعلیٰ اختیاراتی وفدکے حالیہ دورے کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کا مظہر قرار دیا جبکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی مفاد میں سرمایہ کاری ، تجارت سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے ملک میں غیر ملکی سرمایہ لانے میں بہت مدد ملے گی ۔انھوں نے کہا کہ پوری قوم سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی منتظر ہے ۔حالیہ دورہ اعلیٰ سطحی سعودی عرب کے ساتھ اربوں ڈالر کے متعدد سرمایہ کاری کے معاہدے کیے گئے ہیں ۔ بلاشبہ سعودی عرب اورپاکستان کے عوام صدیوں پر محیط مضبوط دوستانہ تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں ۔
ان مواقع پر خان صاحب کا حالیہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ نہ صرف شدید گھبراہٹ کا شکار ہیں بلکہ اپنی اہمیت کھونے کا احساس ان کو مزید پریشان کیے جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دن اس پریشانی کے سبب وہ مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی سفارتی اور اس سے منسلک معاشی ترقی کے ضمن میں سعودی حکام کے دورے اور ایرانی صدر کا متوقع دورہ یقینا ملکی استحکام کی جانب اہم سنگ میل تصور کیے جا رہے ہیں۔ کیا خان صاحب اس کے نتیجے میں ہونے والی ترقی اور معاشی استحکام میں اپنے سیاسی عزائم کی شکست دیکھ رہے ہیں؟ شیر افضل مروت کا سعودی عرب بارے منفی بیان عمران خان کے ان عزائم کی ترجمانی کرتا ہے جس کے تحت کسی قسم کا استحکام صرف خان صاحب کی حکومت کے ساتھ مشروط ہے۔ ان مواقع پر بانی پی ٹی آئی کا پاکستان کی معیشت اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں پر سوال اٹھانا ان کے خطر ناک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ خان صاحب کے یہ عزائم یقینا ریاستی مفاد اور عوام کی فلاح کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی صریحاً نفی ہے۔ کیا عمران خان اپنے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کی نفی کر سکتے ہیں، اگر نہیں تو پھر اب اس کی مخالفت کا کیا جواز بنتا ہے؟ حکومت سے محروم ہونے سے پہلے عمران خان نے جو معاشی رکاوٹیں کھڑی کیں ،یہ ملک آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
خان صاحب نے اپنے بیان میں آئین اور جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کیا خیبر پختونخوا کی حکومت کا قیام اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا چناﺅ اسی آئین اور جمہوریت کے تحت نہیں ہوا؟ اگر ایسا نہیں تو خان صاحب اپنی پارٹی کو یہ حکومتیں اور عہدے چھوڑنے کا کیوں نہیں کہتے؟ آرمی چیف کے بارے میں خان صاحب کی ہرزہ سرائی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انھوں نے تمام معاملے کو ایک ذاتی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ خان صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ آرمی چیف ایک فرد واحد نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا پاکستان اداروں کی عداوت کا متحمل ہوسکتا ہے اور کیا خان صاحب اس ضمن میں عوام اور ملک کے لیے اس کے نتائج اور نقصانات کا ادراک رکھتے ہیں۔ عمران خان کا یہ بیان یقینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ صرف انتشار چاہتے ہیں، جس کے پیچھے چھپ کر وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کر سکیں۔
عمران خان کی حکومت نالائقی کا شاہکار تھی ،انھوں نے حکومت کے دوران پاکستان کے دوستوں کو ناراض کیا ، وہ اسلامی کانفرنس کے متوازی ایک تنظیم کھڑی کرنا چاہتے تھے ، جس کے لیے انھوںنے ملائشیا جانے کی کوشش کی ، لیکن ان کے جہاز کو واپس موڑ لیا گیا، عمران خان نے حکومت سے جاتے جاتے امریکا کو خوب صلوٰتیں سنائیں، انھیں یہ خیال تک نہیں آیا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بہت قریبی دفاعی تعلقات قائم رہے ہیں ۔ اب وہ جیل یاترا پر ہیں تو ان کی عقل کام نہیں کررہی اور وہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات بھی خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انھیں سعودی وفد کا حالیہ دورہ ہضم نہیں ہورہا ، اور وہ نہیں چاہتے کہ سعودی عرب کے تعاون سے پاکستان کے بگڑے معاشی مسائل حل ہوں ۔ لوگ مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کریں۔ خان صاحب جیل کی دیواروں سے سرٹکراتے رہیں ، لیکن وہ پاکستان کے شاندار مستقبل کو زنجیریں نہیں پہناسکتے ۔