دہشت گردی میں افغانستان کے ملوث ہونے کا ایک اور ٹھوس ثبوت
ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کسٹم کے 3 اہلکار شہید اور 4 زخمی ہوگئے۔پولیس حکام کے مطابق ٹول پلازہ کے قریب ناکے پر گاڑی میں بیٹھے کسٹم اہلکاروں پر نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور فرار ہوگئے جس کے نتیجے میں 3کسٹم اہلکار موقع پر ہی جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے۔اسی طرح باجوڑ کی تحصیل سالارزئی کے علاقہ درہ میں پولیس گاڑی کے قریب دھماکا ہوا تاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔مقامی ذرائع نے بتایا کہ بم سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا جبکہ افغانستان سے متصل شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے غلام خان میں پاکستان میں دہشت گردی کی غرض سے دراندازی کے دوران جو 7 حملہ آور مارے گئے تھے ان میں شامل ایک دہشت گرد کی افغان باشندہ ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے جس کی شناخت ملک الدین مصباح کے نام سے ہوئی جو افغانستان کے صوبے پکتیکا کا رہائشی تھا۔
پاکستان کے امن عمل کے کردار کو دیکھتے ہوئے قوی امید تھی کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہو جائیگا اور کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اور دوستی کی راہ ہموار کریگی مگر بدقسمتی سے کابل کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے بھی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتوں والا رویہ ہی سامنے آرہا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی بارہا یقین دہانی کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کیخلاف مسلسل کیوں استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گرد کارروائیوں کی کڑیاں افغانستان سے ہی ملتی ہیں جن کی سرپرستی پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کر رہا ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی نہ صرف تربیت کر رہا ہے بلکہ انکی فنڈنگ بھی کر رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان کا یہ گٹھ جوڑ خطے بالخصوص پاکستان کے امن اور اسکی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کر چکا ہے۔ پاکستان کے بارہا مطالبے پر بھی جب کابل انتظامیہ نے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اقدامات نہ کئے اور اپنے ہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کیخلاف اپریشن نہیں کیا تو مجبوراً پاکستان نے گزشتہ ماہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کی اس کارروائی کے باوجود کابل انتظامیہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم نظر آتی ہے۔ اگر کابل انتظامیہ اور اسکے سرپرست بھارت کو فوری طور پر نکیل نہ ڈالی گئی تو خطے کا امن برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگرپاکستان کی بارہا شکایات کے باوجود عالمی سطح پر ان دونوں ملکوں کیخلاف کوئی کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی توپاکستان کو عالمی طاقتوں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنا دفاع مضبوط بنانے اور سکیورٹی سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔