ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کا آغاز
ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی تین روزہ سرکاری دورے پر گزشتہ روز اسلام آباد پہنچ گئے۔ پاکستان کے نئے منتخب جمہوری سیٹ اپ کی تشکیل کے بعد کسی بھی سربراہ مملکت کا یہ پہلا دورہ ہے جس کی غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خطے میں پیدا کردہ کشیدہ حالات اور ایران و پاکستان میں افغان سرزمین سے جاری دہشت گردی کے تناظر میں اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ایرانی صدر کی اہلیہ اور ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی انکے ساتھ پاکستان آیا ہے جبکہ ایک بڑا ایرانی تجارتی وفد بھی ایرانی صدر کے ہمراہ ہے۔ دورہ پاکستان کے شیڈول کے مطابق ایران کے صدر پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری‘ وزیراعظم میاں شہبازشریف‘ چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے باضابطہ ملاقاتیں کریں گے جبکہ اپنے اس تین روزہ دورے کے دوران وہ کراچی اور لاہور بھی آئیں گے جہاں وہ پاکستان کی صوبائی حکومتی قیادتوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی قیادتوں سے ملاقاتوں کیلئے دوطرفہ وسیع ایجنڈا مرتب ہوا ہے جس کے تحت پاکستان ایران تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور تجارت‘ باہمی روابط اور توانائی‘ زراعت اور عوام کے عوام سے روابط سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ دشمنان اسلام و پاکستان برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف رہے ہیں جس میں بنیادی کردار ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کا ہے۔ اس نے گوادر پورٹ اور اس سے منسلک چین پاکستان اقتصادی راہداری کے معاملہ میں بھی ایران کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی کوشش کی اور پھر ایران کے چاہ بہار پورٹ سے بلوچستان تک بھارتی ”را“ کا نیٹ ورک پھیلا کر اسکے ذریعے پاکستان اور ایران میں اپنے دہشت گرد بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ دونوں ممالک میں کشیدگی پیدا ہو تاہم دونوں ممالک کی قیادتوں نے فہم و بصیرت کے ساتھ ان بھارتی سازشوں کو ناکام بنایا۔ ابھی اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں ایران اور اسرائیل میں پیدا ہونیوالی کشیدگی کو بھی بھارت علاقائی امن و امان خراب رکھنے کے ایجنڈے کیلئے بروئے کار لا رہا ہے تاہم اس خطے اور وسطی ایشیاءکے ممالک کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا احیا روکنے کی ان سازشوں کا مکمل ادراک ہے۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان سے دوطرفہ تعلقات و تعاون کے راستے مزید کھلیں گے تو مسلم امہ میں نقب لگانے کی الحادی قوتوں کی سازشوں پر بھی اوس پڑ جائیگی۔