لا پتہ افراد افسانہ یا حقیقت
لا پتہ افراد کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ اِس مسئلے کا ذکر دنیا کے دوسرے ممالک میں جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اِس مسئلے کو ایک خاص زاویے سے دیکھا جاتاہے جس کا مقصد اِس کی آڑ میں ریاست اور اِس کے اداروں کو نشانہ بنانا ہے۔ اِس معاملے کی تہہ تک جانے کیلئے ضروری ہے کہ لا پتہ افراد اور جبری لاپتہ افراد کے درمیان تفریق کا پتہ ہو۔ لاپتہ افراد وہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی سے غائب ہوئے اور اُن کی تفصیلات کا کسی کو علم نہیں جبکہ جبری لاپتہ وہ افراد ہیں جنکو ریاستی اداروں نے گرفتار کیا ہو لیکن ان کو قانون کے سامنے پیش کرنے کے بجائے خفیہ مقامات پر پابندِ سلاسل رکھا گیا ہو۔ ایسے لاپتہ افراد کے معاملے کو انسانی حقوق کے علمبردار، اِن افراد کے لواحقین اور مخصوص سیاسی قوتیں ریاست اور اِس کے اداروں کو بدنام کرنے کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ جبری لاپتہ افراد کی آڑ میں خود سے لاپتہ افراد کو بھی اِسی گروہ میں شمار کر کے اپنے بیانیئے کو تقویت دی جاتی ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ لا پتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہے لیکن اِس ضمن میں صرف حکومت اور اِس کے اداروں کو نشانہ بنانا قطعاًمناسب نہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پچھلی حکومتوں نے اِس مسئلے کی حساسیت اور معاشرے میں پائے جانے والے منفی تاثرات کی وجہ سے اِس کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اِس سلسلے میں تحریکِ انصاف نے چار، پی۔ڈی۔ایم کی پچھلی حکومت نے سات کمیشن بنائے جبکہ عبوری حکومت میں لا پتہ افراد کے سلسلے میں سب سے بڑے نقاد سردار اختر مینگل کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیاجس میں سینیٹر رضا ربانی، افراسیاب خٹک، مشاہد حسین سید، کامران مرتضی کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے، وکلا اور لمز یونیورسٹی کے پروفیسرز شامل کیئے گئے۔ اِن تینوں ادوار میں قائم کیئے گئے مختلف کمیشنز کی فائنڈنگ تقریباًایک جیسی پائی گئی جو اِس مسئلے کے حقائق سمجھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔
مختلف ادوار میں قائم کیئے گئے اِن کمیشنز کے رائے میں مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے لاپتہ افراد اور جبری گمشدہ افراد کے درمیان تفریق کرنا لازمی ہے۔ اگر اِن دونوں کے درمیان فرق واضح نہیں ہو گا تو معاملے کی سنگینی غیر معمولی طور پر زیادہ ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والے ان دو مختلف نوعیت کے کیسز میں تفریق نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے سے اِن کے مخصوص ریاست مخالف بیانیئے کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ملک دشمن عناصِر شورش زدہ علاقوں کے کم عمر افراد کو اُکسا کر ریاست مخالف بیانیئے کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جب یہ کم عمر نوجوان اِس بیانیئے سے مرعوب ہو کر مختلف دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بنتے ہیں تو اِس میں ان کے خاندانوں کی مرضی شامل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ لاپتہ ہو کر اِن تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اِن کی گمشدگی اِن خاندانوں کیلئے ایک المیے سے کم نہیں ہوتی اور اِن کے جذبات و احساسات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ریاست مخالف تنظیمیں انہیں اپنے مذموم مقاصِد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ یہ غم زدہ لواحقین مختلف احتجاجی تحریکوں کا حصہ بنتے ہیں اور ان کی بے چارگی اور مظلومیت کو ایک منظم اور مربوط طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کر کے انسانی حقوق کی پامالی کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ واردات ہے جسکے ذریعے لاپتہ افراد اور جبری گمشدہ افراد کے درمیان تفریق کو مٹا کر منفی اور ریاست مخالف بیانیئے کی ترویج کی جاتی ہے۔
اگربین الاقوامی سطح پر لاپتہ افراد کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی حالت قطعی طور پر باقی ممالک سے زیادہ سنگین نہیں۔ 2022ء تک امریکہ میں لاپتہ افراد کی کُل تعداد 546568 شمار کی گئی جبکہ برطانیہ میں سالانہ 170000 افراد لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔اگر ہندوستان کو دیکھا جائے تو وہاں کے حالات انتہائی سنگین ہیں کیونکہ ہر مہینے64851 افراد لاپتہ ہوتے ہیں۔ اِس کے بر عکس پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد یقیناً باقی ممالک سے کم ہے۔ کُل10078 لاپتہ افراد میں سے 7781 افراد بازیاب ہو چکے جو کُل افراد کا 77 فیصد ہے۔ اِن میں 1477 افراد اپنی مرضی سے لاپتہ ہوئے یا اغوا کئیے گئے جبکہ بقیہ 820 افراد نے مختلف دہشت گرد تنظیموں مثلا تحریکِ طالبان پاکستان یا بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی۔مندرجہ بالا حقائق کے پیشِ نظر ضرورت اِس امر کی ہے کہ لاپتہ افراد کی گمشدگی کے پیچھے کارفرما عناصر کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر چند اقدامات کیئے جائیں۔ ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی، لواحقین کی صحت و تعلیم کی ضروریات اور مالی معاونت یقیناً اِن خاندانوں کی پریشانیوں میں کمی کا باعث ہو گی۔ اِس سلسلے میں ایک جامع قانون سازی اورلا پتہ افراد کا ایک موثّر کمیشن بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لاپتہ افراد کا مکمل ڈیٹا بیس اور اِن افراد کی آڑ میں افواہ سازی اور ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کی روک تھام بھی ضروری ہے۔