• news

  جماعت اسلامی کے نئے امیر

 حالات اتنی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ ہر لمحے کوئی نہ کوئی نئی ڈویلپمنٹ سامنے آجاتی ہے اور ان میں سے بعض موضوعات اتنے اہم ہوتے ہیں کہ وہ تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کے متقاضی ہوتے ہیں ویسے تو ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بڑا زرخیز ہے کہ وہاں چوبیس گھنٹے نت نئی تخلیق ہو رہی ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا کا ایک منفی پہلو کریڈیبلٹی کا ہے۔ بہرحال موجودہ بین الاقوامی حالات میں ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پوری دنیا ان کے دورہ کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لے رہی ہے، ضمنی انتخابات، تحریک انصاف کے ساتھ بیک ڈور رابطے، مسلم لیگ ن کے اندر نئی سوچ کی حامل لابیوں کی سرگرمیاں، میاں نواز شریف کی مستقبل کی سیاست، اپوزیشن جماعتوں کا بننے والا اتحاد اور حکومت کے خلاف تحریک۔ انتخابی نتائج کے مضمرات، ججز کے معاملات، زیر سماعت سیاسی مقدمات ،جیلوں میں بند سیاسی قیادتوں، ورکروں کا مستقبل،موجودہ اتحادی حکومت کا مستقبل، پاکستان کو درپیش چیلنجز اور سیاسی، معاشی، سماجی عدم استحکام ایسے موضوعات ہیں جن پر تفصیل سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن یہ اتنے وسیع موضوعات ہیں کہ ہر موضوع پر الگ کالم کے متقاضی ہیں۔ پچھلے دنوں سیاست میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی لیکن ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ ہم منفی سرگرمیوں پر زیادہ فوکس کرتے ہیں منفی باتیں زیادہ زیر بحث لائی جاتی ہیں لیکن تعمیری اور اچھی باتوں پر سرسری سی توجہ کے بعد پھر شغل میلے کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ منصورہ میں جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن کی حلف برداری کی تقریب تھی جس میں ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے والے امیر سراج الحق آسودگی محسوس کر رہے تھے اور نئے آنے والے امیر حافظ نعیم الرحمن ذمہ داریوں کے احساس کے بوجھ تلے دبے ہوئے فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔ جماعت اسلامی کے ورکرز میں امیدوں کی نئی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ جوش وجذبہ کا یہ عالم تھا کہ منصورہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی بلکہ ملتان روڈ کی ٹریفک جام تھی۔ بڑی مشکل سے تقریب تک رسائی ممکن ہوئی۔ نئے اور پرانے امیر نے اپنی تقریروں میں تفصیلی گفتگو کی۔ میرے خیال میں جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو جمہوریت کی اصل روح کے مطابق پرفارم کر رہی ہے۔ جماعت کے سسٹم میں ہمیں جمہوریت کا صیح معنوں میں عکس نظر آتا ہے جہاں ایک صاف شفاف طریقے سے جماعتی عہدوں پر الیکشن ہوتا ہے۔ پورے ملک کے ممبران رازداری کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں، کوئی کسی کو نہ دباؤ میں لا سکتا ہے نہ کوئی اثر انداز ہونے کی جرآت کر سکتا ہے۔ کسی کو علم نہیں ہوتا کہ اس کو کیا ذمہ داریاں ملنے والی ہیں۔ جہاں احتساب کا پورا نظام موجود ہے، جہاں باقاعدہ مشاورت ہوتی ہے، جہاں لیڈروں کی رائے مسلط نہیں کی جاتی بلکہ اکثریتی فیصلے کے ساتھ پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے ممبران نے حافظ نعیم الرحمن کو یقینناً اس لیے امیر منتخب کیا کہ انھوں نے اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے کراچی کے عوام میں ایک نئی سیاسی روح پھونکی۔ اس سے متاثر ہو کر ہی جماعت اسلامی کے ممبران نے جماعت کی قیادت ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ دنیا میں جمہوریت جمہور کی خدمت کا نام ہے۔ جو جتنی زیادہ جمہور کی خدمت کرتا ہے وہ ترقی کرتا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے باپ کی جگہ بیٹا بیٹی بھائی بہن اور قریبی رشتہ دار وراثت کے طور پر عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں عوام کو حقوق دلوانے کے لیے بلدیاتی نظام کو موثر بنانے کے لیے جدوجہد کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ سسٹم ان کے راستے کی رکاوٹ بن گیا ورنہ کراچی کے عوام نے حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں اپنا مسیحا ڈھونڈ لیا تھا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے عوام کے مسائل کی ہر فورم پر جنگ لڑی۔ پورے ملک کے حقیقی شعور رکھنے والے سیاسی ورکرز نے ان کی جدوجہد کی دل سے قدر کی۔ وہ ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے آئے اور ملک بھر میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ اب وہ جماعت اسلامی کے امیر بن چکے ہیں۔ موجودہ دگرگوں سیاسی حالات میں جماعت اسلامی کی امارت ان سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ جماعت اسلامی سیاسی استحکام کے لیے راستہ نکالے، سیاسی محاذ آرائی کو کم کرے اور جمہوری روایات کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی قوتوں میں رابطوں کا ذریعہ بنے۔ حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب بوسیدہ سیاسی نظام میں تازہ ہوا کاجھونکا ہے لوگ ان سے حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق سیاست میں جدت اور عوامی حقوق کی علمبرداری کے لیے جدوجہد کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے جس طرح کراچی میں عوامی خدمت کی سیاست کو فروغ دیا لوگ ان سے توقع رکھتے ہیں کہ قومی سطح پر بھی وہ عوام کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ انھیں باہمت امیر العظیم کی صورت میں سیکرٹری جنرل کا ساتھ میسر ہے۔ انھیں تجربہ کار لیاقت بلوچ میاں اسلم اور دیگر عہدیدارن کا تعاون بھی حاصل ہے۔ امید ہے کہ وہ سیاسی روایات کا آغاز کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن