ایرانی صدر کا یادگار دورہ تجارت 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق
پاکستان اور ایران نے سکیورٹی، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر دیئے۔ دستخطوں کی تقریب وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی بھی موجود تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کے معاہدے کی توثیق کر دی گئی۔
سول معاملات میں تعاون کے لئے عدالتی معاونت کے معاہدے پر وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ اور ایران کے وزیر انصاف امین حسین رحیمی نے دستخط کیے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان جوائنٹ فری اکنامک زون اور سپیشل اکنامک زون کے قیام کے لئے مفاہمت کی یادداشت پردستخط کئے گئے۔ اسی طرح انسانی وسائل کی ترقی کے درمیان تعاون کی ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کی? گئے۔ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹییز کے درمیان تعاون کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ایران، پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے۔خوشحالی اور ترقی میں تبدیل کریں،پاکستان اور ایران نے ہمیشہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔
پاکستان اور ایران خطے کے اہم ترین ممالک اور محل وقوع کے لحاظ سے عالمی اہمیت کے حامل خطے میں واقع ہیں۔جسے عالمی تجارت کا کوریڈور بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان ایران کے تعلقات ایک آدھ مرتبہ کی اونچ نیچ کے سِوا ہمیشہ خوشگوار اور گرم جوشی پر مبنی رہے ہیں۔دو ماہ قبل ایران کی طرف سے پاکستان میں پنجگور میں موجود کچھ لوگوں کو اپنے ملک میں دہشت گردی کے الزام کے تحت نشانہ بنایا گیا جسے پاکستان نے اپنی خود مختاری پر حملہ قرار دیا اور ایران میں موجود پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد پر حملہ کیا گیا جس سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی در آئی مگر یہ کشیدگی ایران کی طرف سے معذرت خواہانہ رویے کے بعد نہ صرف ختم ہو گئی بلکہ پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے۔فوری طور پر ایران کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور آج ایران کے صدر کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
آج ایران اور پاکستان قربت دوستی کی نئی راہوں پر چل رہے ہیں۔پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی اور دفاعی تعاون کے معاہدے ہو رہے ہیں۔مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایران کے پاکستان کے ساتھ تعلقات صدیوں پرانے ہیں، اس تعلق کو ہم نے آج ترقی و خوشحالی اور باہمی محبت اور دونوں ملکوں کی بہتری کیلئے استعمال کرنا ہے، 1947ء میں ایران پاکستان کو تسلیم کرنے والے مملک میں سرفہرست تھا۔ آج کا دن یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ اس ہمسائیگی اور اپنی دوستی کو ترقی و خوشحالی کے سمندر میں بدل دیں۔
پاکستان اور ایران کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات پاکستان کے دشمنوں کو ہمیشہ سے کھلتے رہے ہیں۔ایسے دشمنوں میں بھارت سب سے آگے ہے۔ایران کے ساتھ دوستی کی آڑ میں وہ ایران ہی سے دشمنی بھی کرتا رہا۔پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ایران کی سرزمین استعمال کی گئی اور کلبھوشن جیسے دہشت گرد وہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کرواتے رہے۔پاکستان اور ایران کے مابین صدر رئیسی کے دورے کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔آج دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اس دہشت گردی کے پیچھے کون ہے وہ بھی آشکارہو چکا ہے۔دونوں طرف کے بلوچ علیحدگی پسند اسی دشمن کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ ان کے خلاف وہ ایران میں موجود ہیں یا پاکستان میں دونوں ممالک کو مشترکہ آپریشنز کرنے کی ضرورت ہے۔ایران اور پاکستان کے مابین گیس پائپ لائن معاہدہ بھی ہو چکا ہے امریکہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اب جتنے بھی باہمی تجارت کے معاہدے ہوئے ہیں امریکہ ان کی بھی مخالفت کر سکتا ہے۔امریکہ کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جب بھارت ایران کے ساتھ اب بھی تجارت کر رہا ہے تو پاکستان پر ایسی پابندیاں کیوں۔پاکستان کو نہ صرف گیس پائپ لائن معاہدہ مکمل کرنے دیا جانا چاہیے بلکہ آج پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں یہی پیٹرولیم مصنوعات ایران کی طرف سے پاکستان کو نصف سے بھی کم قیمت پر مل سکتی ہیں لہٰذا پیٹرولیم کی سمگلنگ کو معاہدے کے تحت ریگولر تجارت کا حصہ بنایا جائے۔
غزہ کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اس پر ایران نے اپنا بھرپور اور ٹھوس مؤقف اختیار کیا بلکہ باقاعدہ حملہ کرکے اسرائیل کی جارحیت کا جواب بھی دیا۔ایران اور سعودی عرب کے مابین ایک عرصہ تک شدید کشیدگی رہی لیکن یہ کشیدگی اب دوستی میں بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔نو سال کے بعد ایرانی وفد عمرے کے لیے سعودی عرب جا رہا ہے اس وفد کو سعودی عرب کی طرف سے ویلکم کہا گیا ہے۔اسرائیل فلسطین جنگ کے معاملے پر پاکستان ایران اور سعودی عرب مسلم ممالک کی رہنمائی کریں گے تو صورتحال مزید بہتر ہو سکے گی۔
صدر رئیسی نے اسلام آباد میں اپنے ہم منصب صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر زرداری نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اور ان کے حق خودارادیت کی مسلسل حمایت پر ایران کے اصولی موقف کو سراہا۔آرمی چیف جنرل سید عاصم م منیر سے ایرانی صدر کی اہم ملاقات ہوئی۔جس میں آرمی چیف کی طرف سے پاک ایران سرحد کو امن اور دوستی کی سرحد کے طور پر بیان کرتے ہوئے پڑوسی ممالک کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سرحد کے ساتھ بہترین کوارڈینیشن کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
صدررئیسی اپنے دور کے دوسرے روز لاہور اور کراچی گئے یہاں بھی ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ صدر ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہباز شریف اور حکومت پاکستان کا بھرپور استقبال پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرزمین ہمارے لئے قابل احترام ہے، پاکستان کے عوام اور حکومت کو ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اسلامی اقدار کیلئے جدوجہد کی اور ہمیشہ فلسطین و غزہ کے عوام کے حقوق کی حمایت کی۔
دونوں برادر مسلم ممالک مشترکہ کاوشوں سے مسلم دنیا کو اتحادویکجہتی کی لڑی میں پرو سکتے ہیں، علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی ضمانت بن سکتے ہیں اور اپنی معیشت کو استحکام کی منزل سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ایرانی صدر کے دورے سے حال ہی میں دونوں ممالک میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ہو گا۔ پاکستان ایران میں پھیلائی بھارتی دہشت گردی کا تدارک بھی ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے۔