• news

 عمران خان کا چیف جسٹس کے نام خط 

اڈیالہ جیل راولپنڈی کے قیدی نمبر 804 پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا شمار دنیا کے نامور باؤلروں اور کپتانوں میں ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر چونکہ فاسٹ باؤلر رہے ہیں لہٰذا سیاست میں بھی ان کا فاسٹ انداز نمایاں ہے۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں تیز رفتار سیاست کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی تیز رفتار تھے اور فعال اور متحرک سیاست دان تھے مگر عمران خان نے ان کو بھی تیز رفتاری میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ نرم مزاج لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور ایسے لوگوں کو اپنے ارد گرد رکھتے ہیں جو چرب زبان ہوں۔ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے بھی ان پر یہ انداز غالب رہا اور وہ حکومت کے دوران بھی چوکے چھکے لگاتے رہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام دلیر اور بہادر انسانوں کو پسند کرتے ہیں لہٰذا وہ ریاست کے طاقتوروں کو گاہے بگاہے للکارتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ کے نام عمران خان کا حالیہ خط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں چیف جسٹس پاکستان سے جو سات مطالبات کیے ہیں ان میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ نیب نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو مختلف مقدمات میں جو کلین چٹ دی ہے اس کا نوٹس لیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان بہاول نگر میں ہونے والے افسوس ناک واقعہ کا بھی نوٹس لیں جس کے باعث پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی تھی۔ عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر پوری سنجیدگی کے ساتھ کارروائی کی جائے اور عدلیہ میں ریاستی اداروں کی مداخلت روکی جائے۔ عمران خان نے اپنے خط میں یاد دلایا ہے کہ تحریک انصاف نے 8 فروری کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے بارے میں ایک پٹیشن دائر کر رکھی ہے جو دو ماہ سے زیر التوا ہے۔ اس کی فوری طور پر سماعت کی جائے تاکہ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی انتخابی دھاندلی کے حقائق عوام کے سامنے آ سکیں۔ خط میں تحریر کیا گیا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس انداز سے مخصوص نشستوں کو تقسیم کیا گیا ہے اس کا بھی نوٹس لیا جائے۔ نو مئی کے افسوسناک واقعات کے بارے میں بھی تحریک انصاف کی ایک پٹیشن عدلیہ میں زیر سماعت ہے جس میں اس واقعہ کی آزاد اور غیر جانبدار انکوائری کرانے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس کی فوری سماعت کی جائے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جا سکیں۔
عمران خان نے اپنے خط میں کہا ہے کہ آج کل پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی اپنی پستی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ملک میں جنگل کا قانون چلایا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر بد ترین ریاستی جبر و تشدد ہو رہا ہے۔ عمران خان کے بقول وہ اپنے عظیم والد کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں جو تحریک پاکستان کے رہنما اور قائد اعظم کے قریبی اور قابل اعتماد ساتھی تھے۔ آج ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ بانیان پاکستان کی اقدار، اصولوں اور آئین و قانون کی حکمرانی پر عمل درامد کو یقینی بنائیں۔ خط کے لب و لہجے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے ظاہری طور پر خط چیف جسٹس پاکستان کے نام لکھا ہے مگر ان کے اصل مخاطب پاکستان کے عوام ہیں اور یہ خط انہوں نے عوام کی عدالت میں پیش کیا ہے۔ آج پاکستان کا اہم ترین مسئلہ مہنگائی ہے جس کی چکی میں عوام پستے چلے جا رہے ہیں۔ یہ عوام کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے مگر عمران خان نے اپنے خط میں مہنگائی کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے کرپشن کے سلسلے میں بھی کوئی بات نہیں کی جو پاکستانی سماج میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکی ہے اور زہر کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے یہ خط تو وصول کر لیا ہے مگر ان کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا عندیہ نہیں ملا کہ وہ عمران خان کے اس خط پر کس رد عمل کا اظہار کریں گے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان خطوط کی بنیاد پر بھی سوؤ موٹو نوٹس لیتے رہے ہیں۔ عمران خان پاکستان کے مقبول  لیڈر ہیں لہٰذا چیف جسٹس پاکستان کو ان کے خط پر آئین اور قانون کے مطابق سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینا چاہیے۔ عمران خان کا خط پڑھ کر غالب کے یہ اشعار یاد آتے ہیں کہ
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان نے عدل و انصاف کے نظام پر سوالات اٹھائے ہیں اس سے پہلے بھی نظامِ عدل کے بارے میں پاکستان کے عوام شاکی ہی رہے ہیں۔ عالمی رینکنگ میں بھی پاکستان کا عدل وانصاف کا نظام بہت نیچے  ہے۔بقول شاعر
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں۔
گزشتہ روز کتاب کا عالمی دن منایا گیا۔ روز نامہ نوائے وقت نے کتاب دوستی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے شاندار کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عادل پاکستان کی صحافت ادب اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کے مشاہدے مطالعے اور تجزیے نے ان کی تحریر میں جو گہرائی اور وسعت پیدا کی ہے وہ بہت کم کالم نگاروں کو نصیب ہوئی ہے۔انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے بہت سے متنازعہ اور پیچیدہ پہلوؤں پر ہر قسم کے تعصبات سے بلند ہو کر روشنی ڈالنے کی جو کامیاب کوشش کی ہے اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی دو کتابیں بک سٹالوں کی زینت بنی ہیں ’’ہم نے جو بھلا دیا ‘‘ ’’جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘ ان دونوں کتب میں تاریخ پاکستان کے گمشدہ حقائق کو اجاگر کیا گیا ہے۔ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے ان کتب کو خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے۔ بک فیئر لاہور نے معاذ ہاشمی کی نگرانی میں تاریخ پر شاندار کتابیں شائع کی ہیں ’’قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں‘‘ بہترین کتاب ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال خوشحالی بد حالی اور بھوک پسماندگی کی اندرونی کہانی بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب دنیا کی بیسٹ سیلر بک ’’وائی نیشنز فیل‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ اسی ادارے کی ایک اور کتاب’’پاکستان پر عزم سخت جان ملک‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے جو ’’پاکستان ہارڈ کنٹری‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس کے مصنف اناطول لیون ہیں۔ یہ کتاب پاکستان کی تاریخ سیاست ثقافت اور معاشرت پر تحقیق اور تجزیے پر مبنی ہے۔ دونوں کتب کا ترجمہ آسان فہم زبان میں کیا گیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن