• news

جمعرات، 16شوال المکرم   1445ھ،25 اپریل 2024ء

 پی ٹی آئی کے متعدد سخت گیر موقف رکھنے والے رہنمائوں کے نام ای سی ایل  کی فہرست سے خارج۔
چچا غالب نے بہت پہلے کہا تھا 
رگوں میں دوڑنے پھرنے کہ ہم نہیں قائل 
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے۔
سو اب یہی حال ہم سب کا ہے۔ خبر سب نے سنی تبصرہ کرنے کا حق بھی سب کو ہے۔ عوام کا یہ جمہوری حق کوئی ان سے چھین نہیں سکتا، پابندی کسی نے بھی لگائی ہو کوئی بھی کیوں نہ ہو ، گلی محلوں کے تھڑوں ، چائے کی دکانوں پر بیٹھے لوگ جو کہنا ہوتا ہے کہہ دیتے ہیں، ان پر کوئی پابندی ایکٹ نافذ نہیں ہوتا۔ یہ تو سوشل میڈیا نے غلط رنگ جمایا ہے جھوٹ اور سچ کی تمیز ختم کر دی ہے۔ اس نے حالات خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں ایک دور روز سے حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی والوں کے خلاف ہاتھ نرم رکھنے کے جسے ہم ہتھ ہولا رکھنا کہتے ہیں، اشارے مل رہے ہیں۔ بہت سے ایسے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے نام جو ای سی ایل میں ڈالے گئے تھے ان سے ان کے نام نامی اسم گرامی نکال دئیے گئے ہیں۔ گویا اب انہیں ملک سے اڑان بھرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ 
رہنمائوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی شعلہ اگلتی زبانیں مفاہمت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کے نام ای سی ایل سے نکال دینے کا مطلب سب جانتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہے۔ یعنی دال میں کالا عام آدمی کو بھی نظر آ رہا ہے۔ مگر پی ٹی آئی والے بضد ہیں کہ اندر خانے کچھ نہیں چل رہا۔ ہاں البتہ ہم مزاحمت نہیں حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ علیمہ خان کہہ رہی ہیں کہ ہمیں اپنے قائد کو جیل سے نکالنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ہو گا۔ علی امین گنڈا پور کہتے ہیں ہم اپنے حقوق چھین لیں گے۔ اب کچھ رہنما البتہ دبے لفظوں میں مفاہمت کی بات دھیمے سروں میں کر رہے ہیں۔ مگر طبل جنگ کے شور میں ان کی آواز عوام کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی۔ 
شہباز شریف کی فارسی میں تقریر پر ایرانی صدر کھلکھلا اٹھے۔ خوشی کا اظہار
اس سے قبل سعودی علماء کے وفد کے سامنے اسلام آباد میں سیرت میوزیم کے افتتاح کے موقع پر بھی وزیر اعظم نے عربی میں گفتگو یا یوں کہہ لیں تقریر کی تھی جس پر تمام علما کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ اب ایسی ہی حیرت ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو بھی ہوئی جب ان کی استقبالیہ تقریب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں فارسی میں مخاطب کیا، خوش آمدید کہا تو ایرانی صدر کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دوست ممالک کی زبان میں گفتگو سے اپنائیت بڑھ جاتی ہے ورنہ وہی شاعر والی بات کہ
کس اعتبار میں ہم کھل کے گفتگو کرتے 
تیری نگاہ میں اک رنگِ اجنبیت تھا۔
نامانوس تیسری زبان میں خواہ وہ کوئی بھی ہو کھل کر حال دل بیان نہیں ہو سکتا۔ جو مزہ اپنی زبان میں گفتگو کرنے کا آتا ہے کسی اور زبان میں کہاں۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف تو زمانے کے گرم و سرد حالات سے نبردآزما ہوتے ہوئے ماہر ہفت زبان ہو گئے ہیں۔ چینی وفد آئے تو جناب چینی میں، صدر ترکیہ آئیں تو ان سے ترکی میں یوں باتیں کرتے ہیں گویا ترکی ان کی اپنی زبان ہے یوں 
’’زبان یار من ترکی نہ می دانم نہ تودانی‘‘ 
والی بات غلط محسوس ہوتی ہے۔ اردو پنجابی اور انگریزی بھی وہ روانی سے بول لیتے ہیں جبکہ اردو اور پنجابی تقریر کرتے ہوئے تو اچھے خاصے جذباتی ہو کر ڈائس تک الٹ دیتے ہیں۔ لگتا ہے جرمن اور فرنچ سے بھی انہیں شد بدہو گی کیونکہ اقتدار سے دوری کے دوران لگتا ہے انہوں نے زبانیں سیکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لیا جو آج ان کے کام آ رہا ہے۔ فارسی تو ویسے ہی صدیوں تک ہماری سرکاری زبان رہی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے نامور شعرا مثال کے طور پر غالب، اقبال کی اصل شاعری یعنی پرمغز شاعری فارسی میں ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ ان کی وجہ شہرت اردو زبان ہے جو عربی، ترکی ، فارسی سے ہی مل کر بنی ہے…
ایران سے تجارت پرامریکہ کومروڑ۔اورناراضی
اس کے علاوہ امریکہ بہادر اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جن جن ممالک پر امریکہ نے ناراض ہو کراقتصادی پابندیاں عائد کیں وہاں کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ وہاں کے عوام نے حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا۔ ان کے کارخانے، زراعت، کاروبار، عسکری تیاریاں آج بھی عروج پر ہیں۔ الٹا وہ اب کھل کر امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب بھی دیتے ہیں۔ جن جن ممالک پر امریکہ نے اپنی مہربانیوں کا سایہ ڈالے رکھا وہ نحوست کا شکار ہیں۔ وہاں تمام تر تیز رفتار شور شرابے کے باوجود اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہی ہے۔ الٹا قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یعنی امریکہ جہاں سے گیا وہاں خوشحالی آئی ہے اور جہاں گیا وہاں بدحالی کا منظر سامنے آتا ہے۔ اب اس کو کیا کہا جائے۔ امریکہ کو جب مطلب ہو تو وہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی کہتا ہے۔ جب مطلب نکل جائے تو اسے دھمکیاں دیتا ہے۔ یعنی امریکہ کی ساری عنایات کی وجہ اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ دوستی وغیرہ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 
ویسے بھی کہتے ہیں دوستی صرف برابر والوں سے ہوتی ہے۔ کمزور اور طاقتور کی دوستی نہیں ہوتی۔ سو یہی خناس امریکہ کے دماغ بھی بھی سمایا ہوا ہوا ہے۔ اب ایران کے ساتھ پاکستان نے 10 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے کئے ہیں تو امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ براہ راست پاکستان کو پابندیوں کی دھمکیاں دے کر ڈرا رہا ہے تاکہ پاکستان ایران سے معاہدوں پر عمل نہ کرے۔ اب لازم ہے کہ پاکستان سب سے پہلے ایران سے گیس پائپ لائن جلد از جلد مکمل کر کے اپنے عوام کو ریلیف دے۔ 24 کروڑ عوام مطمئن ہوں گے تو وہ ہر قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرنے میں حکومت کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ اس وقت عرب و عجم ہمارے ساتھ ہیں جن کا اور ہمارا مذہب، کتاب ، خدا اور رسول ایک ہے۔ کلچر بھی یکساں ہی ہے تو پھر کسی سے ڈر کر ان سے تعلقات خراب کرنا چہ معنی دارد…
مالدیب میں بھارت مخالف چین نواز سیاسی جماعت نے میدان مار لیا
 جب سے بھارت کے دماغ میں مہا بھارت بننے کا خناس سمایا ہے اس کے قریب چھوٹے چھوٹے ممالک اس سے متنفر ہونے لگے ہیں۔ چین اور پاکستان سے تو پہلے ہی بھارت کو بڑی تکلیف ہے۔ بھارت کی ان دو ممالک سے نہیں بنتی مگر اب غیر ملکی نشریاتی ادارے بشمول بی بی سی بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش جیسا بھارت کا طفیلی ملک بھی اب کھل کر بھارت مخالف بیانیہ جاری کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ ان حالات میں بھارتی سامراج نے بھرپور کوشش کی کہ آس پاس کی، پڑوس کی چھوٹی ریاستوں کو ہی دبائے مگر اس میں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی ہے۔ نیپال جیسی چھوٹی ریاست نے بھی کھل کر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب یہ عجب اتفاق ہے کہ مالدیب میں بھارت نواز حکمران کو بھی بھارت سے قربت اور دوستی کا حساب چکانا پڑ رہا ہے۔ وہاں بھارتی اثر و رسوخ اور تسلط کے خلاف عوام میں شدید نفرت اور غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کا اظہار حزب اختلاف کے رہنمائوں کی طرف سے بار بار بھارت کے خلاف سخت بیانات کی صورت میں کیا جارہا ہے جس پر وہاں کی حکومت کو معذرت کرنا پڑی۔ مگر اب کی بار تو حد ہو گئی۔ مالدیپ کے الیکشن میں وہاں کی بھارت مخالف چین مائو نواز سیاسی جماعت کو بھرپور کامیابی حاصل ہوئی اور بھارت دوست حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ خبر بھارت کے وزیر اعظم کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں جو فی الحال بھارت میں تیسری بار کامیاب ہو کر نیا امیج بنانا چاہتے ہیں۔ اب بے شک وہ بھارت میں الیکشن جیت بھی جائیں، اس پر لوگ تو باہر جوتیاں اور گھر میں جتوئی والی بات کر کے مودی سرکار کا مذاق اڑاتے رہیں گے…

ای پیپر-دی نیشن