دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 110 ارب ڈالر اخراجات ہوئے:سہیل امان
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) بزنس سمٹ (ایل آئی آئی بی ایس) کا ساتواں ایڈیشن اسلام آباد میں ختم ہوگیا۔ ’’ترقی کے لیے تعاون‘‘ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ سمٹ میں ملکی اور غیرملکی مندوبین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایل آئی آئی بی ایس 2024 کی میزبانی نٹ شیل گروپ اور یونٹی فوڈز نے کی، جس کے لیے انہیں اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کا تعاون حاصل تھا۔ فیصل بینک لمیٹڈ پلاٹینیم پارٹنر اور انفرا ضامن پاکستان سٹرٹیجک پارٹنر تھے۔ خطاب کرتے ہوئے ائیر چیف مارشل سہیل امان (ریٹائرڈ)، پاکستان کے چیف آف ائیر سٹاف نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 110 ارب امریکی ڈالرز کے اخراجات آئے، ان اخراجات سے نہ صرف پاکستانی معیشت پر دباؤ بڑھا بلکہ ترقی اور سماجی واقتصادی استحکام پر بھی طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فرسودہ نظام تعلیم ترک کرکے بہترین عالمی طریقوں کو اپنایا جائے۔ اب لوگ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں جنریٹو اے آئی کے لیے پڑھانے کے طریقوں کو بہتربنانا ہوگا۔ گروپ چیف بزنس سلوشن آفیسر، پی ٹی سی ایل گروپ ضرار ہاشم خان نے کہا کہ 1947 سے 1975 تک پی ٹی سی ایل سمیت تمام ادارے ترقی کررہے تھے، تاہم 80 کی دہائی میں پاکستان پیچھے رہ گیا۔ آج پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ کنٹری منیجنگ ڈائریکٹر، پاکستان، عراق، بحرین اور افغانستان ثاقب احمد نے کہا پاکستان جیسا ملک جہاں مذہب اور ثقافت کا کافی اثر و رسوخ ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال معاملات کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ ہم ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے سامنے آتے ہیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر ایس اینڈ پی گلوبل، پاکستان مجیب ظہور نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹولز تک رسائی لوگوں کا حق ہے۔ ڈائریکٹر نٹ شیل کمیونی کیشنز، عثمان یوسف نے کہا کہ بعض اوقات میں ہم مثبت تبدیلی پر کم اور منفی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہم سب کے الگ الگ مسائل ہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں اپنا کردار بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ پارٹنر، سپیکٹرو ایل ایل سی، یو ایس اے سجید اسلم نے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا ہے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل ڈاکٹر ذیشان بن اشتیاق کا کہنا تھا کہ چیلنجز مواقع لاتے ہیں۔ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے ٹیم ورک ضروری ہے۔ ٹیم ورک سے مستقبل کے پیچیدہ مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ ہیڈ آف ریسرچ بزنس ریکارڈر علی خضر نے کہا کہ گزشتہ 30 سال میں پاکستان کا میکرو اکنامک ماڈل بری طرح ناکام ہوا، پائیدار ترقی کے لیے ہمیں بوم اور بسٹ سائیکل سے دور جانا ہوگا۔ چیئرمین محرم اینڈ پارٹنرز مصطفی ایچ محرم نے کہا کہ مصر اور پاکستان مشرق وسطی کا حصہ ہیں۔ ہمیں ایشیا سے ملانے کے لیے پاکستان ہی راستہ ہے۔ پاکستان اور ہماری ثقافت یکساں ہے۔