آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کمٹمنٹ
چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قبول نہیں کی جائیگی۔ جمعرات کے روز سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے ہیں‘ ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی اور اگر کوئی مداخلت ہوئی بھی ہے تو انہیں رپورٹ نہیں کی گئی۔ انہوں نے یہ امر واضح کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے مداخلت کے جو واقعات رپورٹ کئے وہ انکے چیف جسٹس بننے سے پہلے کے ہیں۔
دریں اثناءگزشتہ روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ کے روبرو شہر میں انسداد تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران فاضل عدالت نے گورنر ہاﺅس اور وزیراعلیٰ ہاﺅس کے باہر سے بھی تجاوزات ہٹانے کا حکم صادر کیا اور تین دن کے اندر اندر تمام تجاوزات ختم کرکے عدالت میں روپوٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے باور کرایا کہ کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ راستے بند کرنا اور رکاوٹیں ڈالنا غیرقانونی اقدام ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت خود تجاوزات کھڑی کر رہی ہے۔ تجاوزات کے خاتمے کا اسمبلی سے منظور شدہ بل متعلقہ سینئر افسر کو بھیجیں اور اسکی جیب سے اخراجات وصول کریں۔ جو لوگ پیدل چلتے ہیں‘ ان سے پوچھیں کہ وہ کس تکلیف میں ہیں۔ لوگ انگریزوں کے زمانے کے درختوں کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔ ثواب انگریز کما رہے ہیں۔ فاضل عدالت نے حکم دیا کہ کے ایم سی کی سڑکوں کو بھی تجاوزات سے پاک کیا جائے اور اس بارے میں رینجرز کو ہدایات جاری کر دی جائیں۔ فاضل عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو اس حکمنامہ کی کاپی وفاقی اداروں اور دوسرے تمام متعلقہ اور سکیورٹی اداروں کو بھجوانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے رینجرز ہیڈکوارٹرز‘ گورنر ہاﺅس اور سی ایم ہاﺅس کے باہر سے بھی تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا۔ فاضل عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے استفسار کیا کہ جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا گیا ہے۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سرکار جہاں انکروچمنٹس کرتی ہے‘ وہاں زیادہ سزا ہونی چاہیے۔ سرکار نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سکیورٹی کے ایشوز ہیں‘ بم حملے ہوئے ہیں‘ اس لئے سرکاری عمارات کے باہر سکیورٹی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جگہ خالی کر دیں اور کسی محفوظ جگہ پر چلے جائیں۔ پبلک پر حملے ہوتے رہیں اور آپ محفوظ رہیں‘ یہ کہاں کا قانون ہے۔ میرے آنے سے پہلے سپریم کورٹ کے باہر بھی سڑک بند تھی‘ میں نے کھلوا دی‘ سکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند مت کریں۔ میں نے تو آئی جی پولیس کو کہا ہے کہ میرے لئے روٹس بھی نہ لگوائیں۔ اگر اب روٹس لگائیں گے تو توہین عدالت کی کارروائی کی جائیگی۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تھوڑی سی تو زندگی ہے‘ کیا اس کو بچاتے رہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ وی آئی پی بنے پھرتے ہیں۔ آپ رینجرز ہیڈکوارٹرز کے سامنے سے تجاوزات کیوں نہیں ہٹاتے۔ سب چھوٹے لوگوں کے گھر توڑ دیئے‘ یہ تجاوزات بھی ہٹائیں۔ خطرہ ہے تو آپ لوگ کہیں اور چلے جائیں‘ کنٹینر گورنر ہاﺅس کے باہر رکھنے کی بجائے اندر رکھیں۔ فاضل عدالت نے نسلہ ٹاور کی زمین بیچ کر الاٹیز کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم بھی صادر کیا۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ ہم کسی کو آئین کی دھجیاں اڑانے کی اجازت نہیں دینگے۔ صدر کے پاس یہ اختیار کہاں سے آیا کہ وہ جسے چاہیں‘ پیسے بانٹتے رہیں۔
یہ حقیقت تو اظہر الشمس ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی ملک میں اور ادارہ جاتی سطح پر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا عزم باندھا ہے جس پر وہ خود بھی سختی سے کاربند ہیں اور دوسرے متعلقین کو بھی آئین و قانون اور اپنی حدود وقیود کے دائرے میں رہ کر فرائض کی انجام دہی کا پابند کر رہے ہیں۔ ہم ان سطور میں یہی عرض کرتے رہتے ہیں کہ اگر تمام ریاستی‘ حکومتی‘ انتظامی ادارے آئین میں متعین اپنے فرائض آئین کی روح کے مطابق ادا کریں تو حکومتی‘ سیاسی‘ ادارہ جاتی سطح پر کسی کشیدگی‘ تناﺅ‘ ٹکراﺅ کی کبھی نوبت ہی نہ آئے اور آئین کے تحت قائم وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام پر بھی کوئی زد نہ پڑے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ادارہ جاتی سطح پر اپنی متعینہ ذمہ داریوں کے اندر رہنے اور آئین و قانون کی پاسداری کی کوئی روایت پنپ ہی نہیں پائی چنانچہ ماورائے آئین اقدامات کے تحت بار بار جمہوریت کا مردہ خراب کیا جاتا رہا۔ اس میں بھی اصل قصور ہماری عاقبت نااندیش سیاسی قیادتوں کا ہے جو محض اپنے اقتدار یا اقتدار میں شیرینی حاصل کرنے کی خاطر باہم ٹکراﺅ اور منافرت کی فضا گرما کر ماورائے آئین اقدام والوں کو جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے ہٹانے کا موقع فراہم کرتی رہیں جبکہ عدلیہ بھی مصلحتوں‘ مفاہمتوں کے لبادے میں لپٹ کر نظریہ ضرورت کے تحت ماورائے آئین اقدامات کو آئینی کور فراہم کرتی رہی۔ نتیجتاً سسٹم مستحکم ہی نہیں ہو پایا اور آئین و قانون کی موجودگی میں بھی جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا تصور پختہ ہوتا رہا۔ ماضی قریب میں ایک سیاسی جماعت کی قیادت نے اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت منافرت کی سیاست ریاستی‘ انتظامی اداروں تک پہنچا دی جو پوری ریاست کو نقصان پہنچانے کے مترادف تھا کیونکہ ادارہ جاتی سربراہ اپنے ممدوح سیاسی قائد کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو آمادہ نظر آتے تھے۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے انکی کمٹمنٹ کی بنیاد پر عدالتی‘ سیاسی نظام میں مثبت اور خوشگوار تبدیلی کے راستے ہموار ہونا شروع ہو گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مواخذے اور احتساب کا عمل اپنی ذات اور اپنے ادارے سے شروع کیا اور عدلیہ کی آزادی میں کسی کو حائل نہ ہونے دینے کا ٹھوس پیغام دیا۔ اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے اپنے بعض سابقہ فیصلوں پر نظرثانی بھی کی جو دوسرے ریاستی‘ انتظامی اداروں کیلئے بھی ایک مثال بنی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کسی حکومتی ایجنسی کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کا ایشو چھ سال قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے اجاگر کیا گیا تھا جنہیں اسی پاداش میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے برطرف کر دیا گیا۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے پانچ سال سے زیرالتواءانکی اپیل کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے انکی برطرفی کالعدم کی تو اسکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو مشترکہ طور پر مراسلہ بھجوا کر عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت رپورٹ کرائی گئی جس کا چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی پہلے خود اور پھر خصوصی بنچ تشکیل دیکر نوٹس لیا اور حکومت نے بھی چیف جسٹس سے مشاورت کرکے انکوائری کمیشن تشکیل دیا تاہم کمیشن کے نامزد سربراہ نے اسکی سربراہی سے معذرت کرلی چنانچہ انکوائری کمیشن غیرموثر ہو گیا۔ اس معاملہ پر سپریم کورٹ کی فل کورٹ تشکیل دینے کا بھی چیف جسٹس کی جانب سے عندیہ دیا جا چکا ہے جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اپنے برادر چھ ججوں کے مراسلہ پر غور کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے متعلقہ فاضل جج خود بھی عدالتی اختیارات بروئے کار لا کر عدالتی امور پر مداخلت پر ایکشن لے سکتے تھے تاہم انہوں نے بال چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب پھینک دی جن کے اس دوٹوک اعلان کے بعد کہ عدالتی امور میں کسی مداخلت کو قطعاً قبول نہیں کیا جائیگا‘ یقیناً متعلقین کو کان ہو چکے ہونگے۔
اسی طرح اب چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے سرکاری‘ ادارہ جاتی سطح پر ہونیوالی تجاوزات پر بھی سخت نوٹس لیا ہے اور گورنر ہاﺅس‘ سی ایم ہاﺅس اور رینجرز ہیڈکوارٹرز سمیت تمام مقامات اور عام پبلک کے زیراستعمال سڑکوں سے تجاوزات ہٹانے کا سختی سے حکم دیا ہے تو اس سے یقیناً اب سسٹم میں اصلاح احوال کے راستے بھی کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ مختلف سرکاری اداروں بالخصوص سکیورٹی اداروں کی جانب سے اپنے دفاتر اور رہائشی علاقوں کو عملاً ”نوگو ایریا“ بنایا جا چکا ہے جہاں عوام کو پر مارنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر سرکاری سرپرستی میں تجاوزات قائم کی جائیں تو اس سے قبضہ مافیا اور تجاوزات مافیا کے حوصلے کیوں بلند نہیں ہونگے جبکہ عام آدمی کو اپنی جان و مال سمیت کسی معاملہ میں بھی تحفظ حاصل نہیں اور وہ سکیورٹی کے نام پر ہر جگہ رگیدا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری پروٹوکول اور تجاوزات ہٹانے کیلئے اپنی ذات کو مثال بنایا ہے جو ٹریفک سگنل کے اشاروں کی بھی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ انکی جانب سے اٹھائے جانیوالے اصلاحی اقدامات سے جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے تصور پر یقیناً زد پڑی رہی ہے اور سسٹم میں اصلاحات کیلئے امید کی کرن تابناک اور روشن ہوتی نظر آرہی ہے۔