• news

پاک ایران بہتر تعلقات علاقائی امن کی ضمانت 

ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی سہ روزہ دورہ پاکستان کے بعد لوٹ چکے ہیں ۔پاکستان اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات پائے جاتے ہیں اگر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور سفارتی تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ تعلقات اتار چڑھاﺅ کا شکار رہے ہیں ۔بہر حال کبھی بھی پاکستان کی جانب سے ایران کو اور ایران کی جانب سے پاکستان کو کسی عسکری جارحیت کا سامنا نہیں رہا ہے اور دونوں ممالک نے مشکل اوقات میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور ایک دوسرے کی مدد بھی کی ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ 15سے 20برس کے دوران ایران نے خود کو ایک بڑی علاقائی اور عسکری قوت کے طور پر منوایا ہے اور عالمی سیاسی حالات اور جیو پا لیٹکس کے تناظر میں ایران کی عالمی اہمیت بڑھی ہے جس نے کہ کچھ سیاسی اور سفارتی پیچیدگیاں بھی پیدا کیں ہیں ۔جنوری کے مہینے میں ہمیں ایران کی جانب سے جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جب ایران نے چند مزائل مار کر پاکستان میں اہداف کو نشانہ بنایا اور دوسری جانب پاکستان کی جانب سے بھی ایران کی اس جارحیت کا جواب دیا گیا ،اور جوابی مزائل داغے گئے کچھ دن کے لیے تو ایسا محسوس ہوا کہ دونوں ممالک کسی بڑے عسکری ٹکرا ﺅ کی جانب بڑھ رہے ہیں ،لیکن پھر دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے معاملے کو سنبھالا گیا اور تعلقات کو معمول کی جانب واپس لایا گیا ہے۔ 
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے پہلے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں میں دو طرفہ تعلقات، سکیورٹی، تجارت، توانائی، ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں جن پر عملدرآمد سے دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان پائیدار دوستی اور تعاون کا نیا باب کھل جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر ابراہیم رئیسی کی ملاقات میں ویسے تو جتنے بھی امور پر اتفاق رائے ہوا اور معاہدے ہوئے سب اپنی افادیت کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کےحامل ہیں مگر سب سے اہم مفاہمت دونوں ملکوں میں آئندہ 5 سال کے دوران تجارتی حجم دس ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ ہے جس سے خاص طور پر پاکستان کی معاشی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
 پاک ایران مشترکہ سرحد پر دہشت گردی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کے تدارک کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفا ق رائے ہوا ہے۔ اس حوالے سے ناپسندیدہ افراد کی آمدورفت روکنے اور دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی دوررس نتائج کا حامل ہے، معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط دونوں ممالک کے وزرانے ایک تقریب میں کئے۔ دونوں ممالک کے درمیان جو زیادہ اہم معاملہ تھا وہ ایران پاکستان گیس پائپ لا ئن کا تھا ،اس معاہدے کے خلاف ورزی کی صورت میں ایران نے پاکستان پر 18ارب ڈالر ہر جانے کا دعویٰ دائر کرنے کی وارننگ دے رکھی تھی تو دوسری جانب پائپ لائن مکمل ہو نے کی صورت میں پاکستان کو امریکہ کہ جانب سے پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے امید کی جارہی تھی اس حوالے سے اس دورے میں کوئی اس حوالے سے اہم بریک تھرو دیکھنے کو ملے گا لیکن ابھی تک ایسی کو ئی چیز سامنے نہیں آئی ہے لیکن بہر حال اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ہمیں اس کے لیے مزید انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ 
پاکستان اور ایران کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات پاکستان کے دشمنوں کو ہمیشہ سے کھلتے رہے ہیں۔ایسے دشمنوں میں بھارت سب سے آگے ہے۔ایران کے ساتھ دوستی کی آڑ میں وہ ایران ہی سے دشمنی بھی کرتا رہا۔پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ایران کی سرزمین استعمال کی گئی اور کلبھوشن جیسے دہشت گرد وہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کرواتے رہے۔پاکستان اور ایران کے مابین صدر رئیسی کے دورے کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔آج دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اس دہشت گردی کے پیچھے کون ہے وہ بھی آشکارہو چکا ہے انہی لو گوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ ان کے خلاف وہ ایران میں موجود ہیں یا پاکستان میں دونوں ممالک کو مشترکہ آپریشنز کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جب بھارت ایران کے ساتھ اب بھی تجارت کر رہا ہے تو پاکستان پر ایسی پابندیاں کیوں۔پاکستان کو نہ صرف گیس پائپ لائن معاہدہ مکمل کرنے دیا جانا چاہیے بلکہ آج پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں یہی پیٹرولیم مصنوعات ایران کی طرف سے پاکستان کو نصف سے بھی کم قیمت پر مل سکتی ہیں لہٰذا پیٹرولیم کی سمگلنگ کو معاہدے کے تحت ریگولر تجارت کا حصہ بنایا جائے۔غزہ کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اس پر ایران نے اپنا بھرپور اور ٹھوس موقف اختیار کیا بلکہ باقاعدہ حملہ کرکے اسرائیل کی جارحیت کا جواب بھی دیا۔ایران اور سعودی عرب کے مابین ایک عرصہ تک شدید کشیدگی رہی لیکن یہ کشیدگی اب دوستی میں بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔نو سال کے بعد ایرانی وفد عمرے کے لیے سعودی عرب جا رہا ہے اس وفد کو سعودی عرب کی طرف سے ویلکم کہا گیا ہے۔اسرائیل فلسطین جنگ کے معاملے پر پاکستان ایران اور سعودی عرب مسلم ممالک کی رہنمائی کریں گے تو صورتحال مزید بہتر ہو سکے گی۔موجودہ صورتحال ملکی سفارت کاری کا امتحان ہے ،اگر امتحان میں کامیاب رہے تو پاکستان کی سیاست اور معیشت بھی استحکام کی جانب بڑھ سکتی ہے اور عوام کے لیے اچھے دنوں کی امید پیدا ہوسکتی ہے ۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن