حکومت مذاکرات سے پہلے پیرا میٹرز طے کرے، اسٹیبلشمنٹ، تحریک انصاف حقیقت: شبلی فراز
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ+اپنے سٹاف رپورٹر سے) پی ٹی آئی کے رہنما اور سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور مرکزی لیڈر شپ گرفتار ہوئی تو کچھ لوگ پارٹی چھوڑ گئے، لوگوں کے پارٹی چھوڑنے سے ایک خلاء سا پیدا ہوگیا۔ میرا کردار سیکرٹری جنرل کو ان کے کاموں میں معاونت فراہم کرنا تھا۔ کور کمیٹی اور ایپکس کمیٹی کے ذریعے فیصلہ سازی کا اختیار تھا۔ مشکلات کے باوجود ہم نے ملک بھر میں امیدوار کھڑے کئے، کور کمیٹی کے علاوہ کچھ فیصلے ہم نے باہمی مشاورت سے بھی کئے، سپیکر خیبر پی کے اسمبلی کے معاملے پر 2،3 نام آئے، سیاسی عدم استحکام نے ملک کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ مذاکرات کے پیرا میٹرز پہلے طے کئے جائیں، پیرا میٹرز طے ہوں کس کس طریقے سے اور کس ماحول میں مذاکرات ہوں گے۔ جو سٹیک ہولڈرز ہیں ان سے مذاکرات ہونے چاہئیں، تحریک انصاف بھی ایک حقیقت ہے اسٹیبلشمنٹ بھی ایک حقیقت ہے۔ شبلی فراز نے مزید کہا کہ مذاکرات کے لئے پہلے گراؤنڈ ورک اور پھر ماحول کو مدنظر رکھنا ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے نام آج یا کل تک فائنل ہوجائے گا۔ سپیکر کی جانب سے شیر افضل کے نام پر اعتراض کے باعث بانی پی ٹی آئی نے دوسرا نام دیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے حامد رضا کانام بھی بانی پی ٹی آئی نے دیا تھا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کیلئے سپیکر آفس نے کنفیوژن پیدا کی۔ دریں اثناء شہریار خان کے فوج سے مذاکرات کے بیان پر حکومتی اتحاد نے تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے ردعمل میں کہا کہ یہی بانی پی ٹی آئی کا مسئلہ ہے بانی کا ایک ہاتھ گریبان پر ہوتا ہے اور دوسرا ہاتھ پاؤں پر ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی مرضی ہے لیکن آج نہیں تو کل سیاستدانوں کو ہی آپس میں بات کرنا پڑے گی۔ دریں اثناء پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی پانچ فرنچائزز ہیں، یہ اتنا بتا دیں کہ ان کی آفیشل فرنچائز کونسی ہے، شہر یار آفریدی اور بانی پی ٹی ائی پہلے 9 مئی کی معافی مانگیں،پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حاضر سروس کے پاؤں پڑتے ہیں اور ریٹائرڈ کا گریبان پکڑنا چاہتے ہیں۔ انہیں سیاسی قوتوں سے ہی مذاکرات کرنے پڑیں گے، سنی اتحاد کونسل، پی ٹی ائی ارمی کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں، ہم نے ہمیشہ سے سیاست میں آرمی کی مداخلت کے خلاف ہیں، اسلام آباد پر چڑھائی کی باتیں کرنے والے آئیں گے اپنی مرضی سے اور واپس جائینگے وفاق کی مرضی سے جبکہ دہشتگردی میں ملوث افراد سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہونگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سید سبط الحیدر بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا کہ سیاسی قوتوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، بلکہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کریں گے، سنی اتحاد کونسل، پی ٹی آئی آرمی کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں، ہم ہمیشہ سے سیاست میں آرمی کی مداخلت کے خلاف رہے ہیں۔ولید اقبال نے کہا کہ تحریک انصاف کے ورکرز، سپورٹرز، لیڈران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا جو لوگ جیلوں میں سلاخوں کے پیچھے ہیں ان پر تشدد کیا گیا اذیتیں دی گئیں، چادر و چاردیواری کی پامالی کی گئی، انہوں نے کہا کہ کونسے ملک کونسی جمہوریت میں ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ بیرسٹر ابوذر سلمان نیازی نے کہا کہ ہم ہمیشہ کہتے تھے اس ملک میں رول آف لا نہیں ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ رجیم چینج کے بعد اس ملک میں فسطائیت کا راج ہے۔ ڈیموکریسی ہیومن رائٹس بیورو کی سو صفحوں پر مشتمل یہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں آئین اور قانون کے نفاذ کا مطلب کیا تھا کہ ان سے پہلے جنگل کے قوانین تھے، ان کا خاتمہ، اگر سپریم کورٹ میرے آپ کے اور عمران خان کے بنیادی انسانی حقوق کا ہی تحفظ نہیں کر سکتی تو آئین اور قانون بے معنی ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کو اسلام آباد پر چڑھائی کا غیر ذمہ دارانہ بیان واپس لینا چاہئے۔ حکومت میں گورنر راج لگانے کی کوئی سوچ نہیں مگر اسلام آباد پر چڑھائی سے حالات خراب ہونگے یہ نہیں ہو سکتا کوئی اسلام آباد پر چڑھائی بھی کرے اور حکومت میں بھی رہے، اس پر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ایک اور 9 مئی کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ پہلے چڑھائی کر کے دیکھ چکے ہیں۔ دریں اثنا رؤف حسن نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لئے سوا سال سے کمیٹی قائم ہے بات چیت کے لئے تیار تھے، ہیں اور رہیں گے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ 6 جماعتی اتحاد ثبوت ہے کہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ حکومتی جماعتیں مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو پہلے مینڈیٹ واپس کریں۔ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگیں گے اس پر بات ہوگی کہ ان کا سیاسی کردار نہیں ہونا چاہئے، سب اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ مسلم لیگ، پی پی، ایم کیو ایم سے مذاکرات نہیں کرینگے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سوچ سیاسی نہیں، پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے مسلط ہونا چاہتی ہے۔ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر طے کر لیں کہ ہر ادارہ اپنے آئینی کردار تک محدود رہے تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام آجائے تو کسی کو کیوں اعتراض ہو گا۔ یہ ہر چیز کا الزام ہم پر لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں مذکرات ان کے ساتھ کریں گے۔ سوا سال سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنائی ہوئی مگر اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کا ہتھیار بنے اور یہ مسلط ہو جائیں۔