عدلیہ کی تاریخ سے خوش نہیں، عالمی ڈیٹا تشویشناک، کام نہ کرنے والے ججوں کو باہر نکالنا ہو گا: جسٹس منصور
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی تاریخ سے زیادہ خوش نہیں ہوں دنیا میں ہماری عدلیہ سے متعلق ڈیٹا قابل تشویش ہے۔ لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا عدلیہ کی تاریخ سے زیادہ خوش نہیں ہوں۔ دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔ سینئر جج سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 24 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔ زیر التوا کیسز کے لئے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہے اپنے سسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیسز نمٹانا مشکل ہو گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو مزید بااختیار ادارہ بنانا ہوگا اور عدالتوں کے لئے ڈیٹا اپنا لیس روم بنانا ہونگے۔ ایک چیف جسٹس ہمیں ایک طرف دوسرا دوسری طرف لے جاتا ہے جب تک افراد سے نکل کر نظام کی طرف نہیں آئیں گے اسی طرح معاملہ چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چار ہزار ججز ہیں جس میں س تین ہزار کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 231 ملین اس تناسب سے فی ملین 13 جج ہیں جبکہ دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90 جج ہیں۔ عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90 جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو 21 ہزار جج درکار ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا پاکستن میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے۔ کرکٹ میچ ہار گئے تو اسٹرائیک ہو جائے گی، لوگ بھینس بکریاں بیچ کر عدالتوں میں آتے ہیں ہڑتال میں کسی شخص کو عدالت آنے کے لئے کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کا احساس کریں۔ ان کا کہنا تھا برازیل میں بجٹ میں سب سے اہم عدلیہ ہے جبکہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد کیس ملتوی کرا دیئے جاتے ہیں جہاں عدلیہ کی جانب سے کچھ ہوتا ہے وہاں وکلاء بھی کیسوں میں تاخیر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ برطانیہ میں 203 لوگوں کیلئے ایک وکیل ہے جبکہ پاکستان میںایک ہزار لوگوں کے لئے ایک وکیل ہے۔ پاکستان میں وکلا کی تعداد بڑھنی چاہئے لیکن وکلا صحیح ہوں جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال باہر پھینک دینا چاہئے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا دنیا بھر میں کمرشل کورٹس کو اہمیت دی جاتی ہے ہمیں بھی اس پر توجہ دینی ہو گی۔ پاکستان میں کمرشل کوریڈور بنے گا تو اس سے معیشت کے معاملات حل کرنے میں آسانی ہو گی۔ فاضل جج کا کہنا تھا خواتین پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد خواتین ہیں لیکن ہم خواتین نہیں لارہے۔ 562 جج خواتین ہیں اس کے لئے ہمیں اہم اقدامات کرنا ہونگے جب تک ٹریننگ نہیں ہوگی سسٹم نہیں چل سکتا۔ دریں اثنا چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ ہم گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ (جی ڈی پی) کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں۔ خطے میں تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ لاہور میں نجی یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان بھارت کے درمیان کشیدگی کے معاملات ہیں دہشت گردی کشمیر ایشو پاکستان اور بھارت میں تنازعات اور کراس بارڈر ٹیررزم جیسے مسائل بڑے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہمارا مقصد امن بھائی چارہ اور معاشی طور پر ملک کو مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان امن سے تمام معاملات کے حل پر یقین رکھتا اور اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے مزید کہاکہ پاکستان نے افغان معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے بھی اہم کردار ادا کیا۔ خطے میں غربت کے خاتمے اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ دبا نہیں رہنا چاہئے تمام مسائل کو مذاکرات کے ساتھ حل کیا جانا چاہئے۔ لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے خرم دستگیر نے کہا کہ آپ ذمہ داری دے رہے ہیں مگر اتھارٹی نہیں دی جا رہی۔ پارلیمانی جمہوریت ایم این اے بنانے کا نام نہیں جو مینڈیٹ دیا اس کی عزت کرنا ہو گی۔ دریں اثناء بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے میں ایسی قانون سازی ہوئی جس کو پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ بیرسٹر علی ظفر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بل آتا تھا بس سٹیپ ہوتا تھا اور بل منظور ہو جاتا تھا، ایسے قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔ 2024ء کے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا مگر میں نے دیکھا پولنگ سٹیشنز پر لوگوں نے ووٹ ڈالنے والوں کو ہمارے امیدواروں کے نشانوں کے بارے آگاہی دی، کبھی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ عدلیہ حکومتی پالیسیوں میں مداخلت کرتی ہیں۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ہمیں دہشت گردی جیسے چیلنج کا سامنا ہے، طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے۔ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے نجی یونیورسٹی میں کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور اس خطے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک سے پاکستان کے راستے تاجکستان سمیت دیگر ممالک کو تجارت ہوگی، پاکستان سوشل اکنامک کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا حل ہونا چاہیے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بطور چیئرمین سینٹ وہ خطے بھر کے ممالک سے بہتر تعلق کے لیے کوشش کریں گے۔ ہمیں دہشت گردی جیسے چیلنج کا سامنا ہے، طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے۔