غیرسنجیدہ ، غیر جمہوری انداز حکومت
کہر اور دھند کی چادر تلے سوئی زمین بیدار ہو چکی۔ موسم گرما کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے اور اس کی سنہری کرنیں قدرتی مناظر کی نقاب کشائی کرتا ہوئے زندگی کا پیغام دے چکی ہیں، ہوا بھی چلے تو خوشگوار احساس لاتی ہے مگر دل و دماغ پر مایوسی اور بے یقینی کی کہر چھائی ہے کہ بدلتا موسم بھی مہنگائی کے ستائے عوام کے چہروں کو بہار نہیں کر سکا اور ہر کوئی کہہ اٹھا ہے:
’’گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح ‘‘
موسم گرما کی آمد کسی عفریت سے کم نہیں لگ رہی کیونکہ قوت خرید مکمل طور پرجواب دے چکی ہے اور حکومت وقت کی طرف سے ریلیف میں صرف ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس ختم کی گئی ہے ۔ہمیں یاد ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں جب تبدیلی سرکار سے سوال ہوتا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت دوگنا بڑھ جاتی ہے تو اس پر قابو کیوں نہیں پایا جاتا تو وہ لگی لپٹی رکھے بغیرکہتے تھے کہ مافیاز بے قابوہیں اور اگر ان پر ہاتھ ڈالیں گے تو کرسی نہیں رہے گی ۔پھر یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ بر سراقتدار اور برسر پیکارببابنگ دہل کہتے رہے ہیں اگر پٹرول کی قیمت بڑھے تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہے اور رات کے اندھیرے میں قیمتیں بڑھا کر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔۔لیکن اب مافیاز کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، آئی ایم ایف کا رونا دھوناچلتا رہتا ہے اور حکمرانوں کے نت نئے مضحکہ خیز بیانیوں ، فنکاریوں اور شعبدہ بازیوں سے رونق میلہ لگا رہتا ہے ۔ مسخرہ پن کو مقبولیت سمجھنے والوں کے مشیر انھیں بتا تے ہی نہیں کہ شعبدہ باز بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کو سرکستان بنا کر رکھ دیا ہے۔
نہ کسی کو فکر منزل ، نہ کہیں سراغ جادہ ۔۔یہ عجیب کارواں ہے ، جو رواں ہے بے ارادہ ! المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی مکمل سچ نہیں بولتا لیکن بولتے ضرور ہیں اور ادھورا سچ زیادہ خطرناک ہوتا ہے با ئیں وجہ وزیروں اور مشیروں کے دفاعی بیانیے مزید سوالات کھڑے کر دیتے ہیں ۔زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ بر سر اقتدار جماعتوں نے سوشل ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دودھ کی نہریں بہا دی ہیں اور تعمیر و ترقی میں ان ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جن کے ہم مقروض ہیں جبکہ ملک کے معاشی حالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں اورعالمی بینک کے موجودہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں محض ایک سال کے دوران غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.3 تک پہنچ چکی ہے ۔یوں پاکستان میں تقریباً70 فیصد افراد ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسے میں روٹی کی قیمت میں چار روپے کی کمی کر کے داد طلب کرنا سوالیہ نشان ٹھہرا !کیونکہ چار روپے تو کوئی دوکاندار واپس نہیں کرتا ،کسی کے پاس بھی سکے نہیں ہوتے اور ان کی اہمیت صرف اتنی سمجھی جاتی ہے کہ اگر کوئی اصرار کرے تو ایک ٹافی پکڑا دی جاتی ہے اور نان بائیوں کو کیا فرق پڑا ، انھوں نے وہ روٹی جو پہلے ہی کاغذ جیسی تھی اسے ایک لقمہ بنا ڈالا ہے ۔ ظلم اور ڈھٹائی تو یہ ہے کہ اگلے ہی روز پٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں اضافہ کر دیاگیا پھر دو چار دروز کے اندر اندرچینی ، چکن،فروٹ سمیت کئی چیزوںمیں اضافہ ہوتا چلا گیااور یہ سلسلہ ہر دس روز بعد چلتا ہے ۔و طن عزیز کی محبت سے سرشار کوئی اس نازک صورتحال اور مافیاز کی کھلی لوٹ مار پر تنقید کرے تو حکومتی رفقا اور ترجمان بڑی برحمی سے پیش آتے ہیںا ور پھر ایک روایتی بیان دیا جاتا ہے کہ امن کے راستے میں آنے والوں کو معاف نہیں کریں گے گویا کہ ایسے نقاد ہی تمام جرائم کی جڑ ہیں جو لیڈران کو وقتاً فوقتاً حلف نامے یاد کرواتے یا عذاب الہی سے ڈراتے رہتے ہیں ۔یقینا خوف آخرت تو اندر سے بیدار ہونا چاہیے لیکن جب حکمران مست مئے پندار ہوں تو اصلاح فرض ہوجاتی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ وہ کیسے پالیسی میکر ہیںجو سوچتے نہیں کہ بے روزگار معاشرہ ہے ، نوکریاں ملتی نہیں تو ایسے میں لوگ کیسے جئیں گے ؟ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں نا جایز ٹیکسوں کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہو کر چھلک بھی چکا کہ گذشتہ برس موسم گرما میں واپڈا کے نچلے طبقے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، ملک بھر میں عوامی احتجاج ہوا مزید بجلی کے بل بھی جلائے گئے تھے تو پہلے ہی فروری مارچ کے ناجائز ٹیکسوں کے ساتھ بجلی کے بلوں کی وصولی کے عذاب سے ہر شخص گزر رہا ہے ہے تو اب کیاہوگا ؟ کارل مارکس نے ٹھیک کہا تھا کہ جنھوں نے گرمی سردی کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور غربت کتابوں میں پڑھی ہو وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ عوام کی قیادت کر سکیں ۔ دیانتدار لیڈرشپ کا ہی تو فقدان ہے جس نے ریاست کا شیرازہ بکھیر رکھا ہے۔
بہر حال یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ قیمتوں میں ریلیف اور فری یونٹ دینے کے وعدے یاد کروائیں تو ایسے رعونت میں ڈوبے بیانیے داغے جاتے ہیںکہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے کیونکہ یہ وہی ہیں جو کہتے تھے کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور تشہیری منصوبوں میں وعدے اڑاتے رہے اور اب بھی وعدوں کی تکمیل پاپولر پالیٹیکس میں سمٹ کر رہ گئی ہے لیکن اب عوام میں ہمت نہیں ہے ۔۔کاش! کوئی خوف آخرت رکھنے والا مشیر انھیں بھی اس بادشاہ کا قصہ سناتا جو سردیوں کی شام اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر باریک وردی میں پہرہ دے رہا تھا ۔بادشاہ نے اس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا : سردی نہیں لگ رہی بابا ۔۔؟؟؟دربان نے جواب دیا :’’بہت لگتی ہے حضور ۔۔مگر کیا کروں ،میرے پاس گرم وردی نہیں ہے‘‘ ۔بادشاہ نے کہا : میں ابھی اندر جا کر گرم جوڑا بھیجتا ہوں ‘‘دربان نے خوش ہو کر بادشاہ کو فرشی سلام کئے اور بہت تشکر کا اظہار کیا ۔لیکن بادشا ہ جب اپنے گرم محل میں گیا تو سب بھول گیا اور صبح بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ دروازے پر دربان کی لاش پڑی ہے اور قریب زمین پر لکھا تھا کہ بادشاہ سلامت ! میں برسوں سے یہاں باریک کپڑوں میں پہرہ دے رہا تھا، مجھے احساس نہیں ہوتا تھا مگر کل رات آپ کے وعدے نے میرے جان لے لی ! تو عرض ہے کہ آپ کے جھوٹے وعدوں کی آڑ میں ذاتی مفادات کے حصول نے عوام کو بہت مایوس کر دیا ہے لیکن ’’ابتک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں ‘ کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تو کچھ کر کے دکھائیں۔