یادوں کی پوٹلی
یادوں کا دریچہ کھلتا ہے اور گذرے وقت کے خوبصورت لمحے آنکھوں کے سامنے جھلملانے لگتے ہیں۔ اسلام آباد سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع میراسر سبزوشاداب گائوں ٹکال ہے جہاںعام سی زندگی کا سادہ سا رہن سہن ہے مگر دِلکش یادوں سے مزین ہے۔ وقت بہت خوبصورت تھا کہ اْس وقت تک مشینوں کی حکومت مکمل طور پر قائم نہیں ہوئی تھی اور لوگ ایک دوسرے کی رفاقت میں زندگی گزارتے تھے۔ بے لوث رشتے اور دوستیاں تعلقات کی بنیاد ہو تے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کے دْکھ درد میں شریک ہوتے تھے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ جاتے تھے۔ بھلے کچے مکان تھے لیکن لوگ من کے بہت سچے اور بہت پکے ہوا کرتے تھے۔
دِن کا آغاز سورج طلوع ہونے سے قبل ہوتاتھا اور لوگ منہ اندھیرے اپنی مصروفیت میں کھو ہو جاتے تھے۔ سورج نکلنے کے بعد یا دیر تک سونے کو عام طور پر معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کئی بار صبح دیر سے اْٹھنے پر ہمیں سخت ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ صبح سویرے لوگ اپنے اپنے کاموں میں جْت جاتے ہیں اور ایک بہت خوبصورت دِن کا آغاز ہو جاتا۔ گھرداری مائوں کی ذمہ داری تھی بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ گھر مائوں کے دم سے ہوا کرتے تھے۔ گھر کے سارے کام ماں کے سپرد ہوتے تھے۔
صبح ہم سکول کے لیے تیاری کرتے تھے۔ اْس وقت تیاری کچھ ایسی مشکل اور بھاری نہیں ہوا کرتی تھی جیسی آج کل ہوتی ہے۔ ایک بستہ، دو تین کتابیں ،دو تین نوٹ بکس، لکھائی کی مشق کرنے کے لیے ایک لکڑی کی تختی اور دو قلم کسی بھی طالب علم کا کل اثاثہ ہوتا تھا۔ سکول کی عمارت بھلے خستہ دِکھائی دیتی تھی مگر سخت نظم و ضبط اور اعلی معیار ہر صورت برقرار رکھا جاتا تھا۔ اساتذہ کا احترام بہت مقدم ہوا کرتا تھا اور علاقے بھر میں اساتذہ کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اساتذہ کی بے لوث محنت اور لگن کی وجہ سے اس دور کے اساتذہ کرام کو آج بھی ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
گائوں میں کھیلوں کے موسم ہوا کرتے تھے۔ اگر کرکٹ کا موسم ہے تو ہم سب کزنز کرکٹ کھیلتے تھے۔اگر ہاکی کا موسم ہوتا تو ہم سب ہاکی کھیلتے اور کبھی کبھی والی بال بھی کھیلنا شروع کر دیتے تھے اور اْس وقت کے نامی گرامی ہیروز کے انداز میں کھیلنے کی کوشش کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آج ہم اْن کھیلوں کا ذکر کریں تو اپنے ہارے ہوئے میچز کو یاد کر کے زیادہ انجوائے کرتے ہیں اور جیت کا ذکر کم کرتے ہیں۔ گھر میں سب کا خیال تھا کہ ہم کھیل کود میں زیادہ وقت ضائع کرتے ہیں۔روٹین کے مطابق ہم سکول سے آتے ہی بستہ کہیں پہ جلدی جلدی پھینک کر کھیل کے لیے نکل جاتے ہیں اور پھر شام تک کھیلتے رہتے۔ یہ بات بہرحال سب کو معلوم تھی کہ مغرب کا وقت گھر واپس آنے کے لیے ڈیڈ لائن ہے۔ اس لیے سب لوگ مغرب سے پہلے پہلے کھیل کونمٹا کر گھر کا رخ کرتے۔اْس وقت مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنے کو گائوں میں اچھا خیال نہیں کیا جاتا تھا۔
گائوں میں خوشیاں اور غم سانجھے ہوا کرتے تھے۔ سب لوگ ایک دوسرے کے دْکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ہر موقع پر سب مل جل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ گندم کی کٹائی کا موسم ایسا ہوتا تھاکہ سارے گائوں میں ایک میلہ سج جاتا تھا۔ گندم کٹائی ایک خوبصورت سرگرمی ہوتیتھی۔ اْس وقت مشینیں نہیں ہوتی تھیں اِس لیے سب لوگ سب باری باری ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔اِس موقع پر خاص کھانے بھی تیار کیے جاتے تھے اور ایک خاص حلوہ بھی تیار کیا جاتا تھا۔ گائوں میں کھیتی باڑی بہت سے لوگوں کے معاش کا ذریعہ تھا اور اْس کے علاوہ لوگ زیادہ تر سرکاری نوکریوں پر انحصار کرتے تھے اور اکثر کسی نہ کسی سرکاری نوکری کے لیے شہر کا رخ کرتے تھے۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت گزر گیا۔ لوگ روزگا ر کے سلسلے میں گائوں سے رخصت ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ لوگ گائوں سے رابطے میں رہے کہ وہ اپنی بنیاد سے جڑے رہنا چاہتے تھے کہ دْوری اور وقت گزرنے کے باوجود اْن کے دِلوں میں گائوں کی یادیں زندہ و تابندہ رہتی تھیں۔ کچھ رابطے سے کٹ گئے کہ اْن کے لئے گائوں کے ساتھ محبت پالنا قدرے مشکل ہوگیا۔
ہماری نسل نے گائوں میںکئی سال بسر کئے اور خلوص ، محبت ، قربانی اور بھائی چارے جیسی روایتوں کو جنم لیتے دیکھا۔ ہماری نسل کے پاس گائوں کے حوالے سے خوبصورت یادوںکا اثاثہ ہے۔ ہم جب بھی گائوں جاتے ہیں تو ہم کھیت کھلیان، باغ و بہار، ٹاہلی، کیکر،پھول، بیریاں، چرندپرند، مٹی کی سوندھی خوشبو سب حوالوں کے ساتھ خود کو دیکھتے ہیں اور یہ سب گائوں کی زندگی کے استعارے ہیں جو گائوں سے وابستہ ہرشخص کے دِل پرکسی خوبصورت پینٹنگ کی طرح نقش ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آنے والی نسل خود کو ان حوالوں کے ساتھ تعلق جوڑنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ اِس لیے کہ ہماری نسل گائوں کے ساتھ محبت کے تجربے سے گزری ہے جبکہ نئی نسل کو صرف گائوں سے محبت اور گائوں کے رہن سہن کی خوبصورت کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ ایسی خوبصورت کہانیاں جو شاید اْنھیں گمان کی حد تک ہی سچ لگتی ہوں گی۔ ہماری نسل کو سمجھنا ہوگا کہ جو دلیل گائوں سے محبت کے حوالے سے ہماری ہو سکتی ہے وہی دلیل اگلی نسل کی نہیں ہو سکتی۔ اگلی نسل نے مختلف حالات کے دور میں آنکھ کھولی اور اب وہ اْس میں رہتے ہیں۔ ہماری نسل کی مشکل یہ ہے کہ ہم اِس دور میں بھی رہے ہیں اور اْس دور میں بھی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی نسل یہ سمجھتی ہے ہم شاید کہیںکے نہیں رہے۔ اگلی نسل کا باخبر نمائندہ محمد عمر شبیر مجھ سے پوچھتا ہے۔بابا! آپ کسی دوسرے ملک میں سکونت اختیار کیوں نہیں کر سکتے؟ تو میں اْس کو بتاتا ہوں کہ میرے پاس خوبصورت یادوں کی بہت بھاری پوٹلی ہیاور اب یہ بھاری پوٹلی اْٹھا کر میں کسی اجنبی دیس میں مارا مارا نہیںپھر سکتا۔
٭…٭…٭