شہباز شریف شہزاد ہ محمد میں تعاون مزید بڑ ھانے پر اتفاق
اسلام آباد+ریاض ( خبرنگار خصوصی+ ممتاز احمد بڈانی +اے پی پی) وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان سے ملاقات کی، دونوں رہنماؤں نے مکہ مکرمہ میں ہونے والی اپنی ملاقات میں کئے گئے فیصلوں پر پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیجنے اور سر مایہ کاری کے حوالے سے مزید وفود کو پاکستان بھیجنے کے حوالے سے ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران شاندار میزبانی، سعودی وزراء کی جانب سے پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے جامع پروگرام مرتب دینے پر ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔ ملاقات میں غزہ کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کو دورہ پاکستان کی دعوت کا اعادہ کیا۔ دوسری طرف وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ فلسطین میں قیام امن بہت ضروری ہے، غزہ میں امن کے بغیر دنیا میں مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا، پاکستان معیشت کی بہتری کیلئے بنیادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، ہمیں موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہوئے ہیں، نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور فنی تربیت کی فراہمی کے ذریعے ہم انہیں اپنا روزگار شروع کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں اس وقت تک امن نہیں ہو گا جب تک غزہ میں مستقل امن قائم نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے جب غزہ کے بارے میں بات کی تو ہال سامعین نے تالیوں کی گونج میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین میں تنازعہ کے باعث دنیا بھر میں اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور پاکستان صنعت اور زراعت کے لئے ضروری خام مال درآمد اور خرید نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس مہنگائی نے ترقی پذیر ممالک کی کمر توڑ دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جس کا موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات سے کوئی تعلق نہیں ہے، اخراج میں ہمارا حصہ ایک فیصد کا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے زمین کا بڑا حصہ زیر آب آ گیا اور لاکھوں گھر اور جانور بہہ گئے اور یماریاں پھیل گئیں۔ حکومت نے متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے 100 ارب روپے خرچ کئے ہیں، مشکل وقت میں تعاون پر سعودی عرب، خلیجی ممالک، برطانیہ، امریکہ اور دیگرممالک کے شکر گزار ہیں۔ پاکستانی معیشت کو سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ قدرتی آفت کی وجہ سے مہنگے نرخوں پر قرضے لینے پڑے ۔ انہوں نے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے عزم کے اظہار کے لئے اپنے خاندان کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد اور ان کے بھائی غیر منقسم ہندوستان میں ایک غریب کسان کے بیٹے تھے اور تقسیم کے وقت لاہور ہجرت کر گئے تھے، سخت محنت کے ساتھ 1965 میںپاکستان میں سٹیل انجینئرنگ کی سب سے بڑی کمپنی قائم کی لیکن 2 جنوری 1972 کو اسے نیشنلائز کر دیا گیا۔ میرے خاندان نے چیلنج قبول کیا اور اگلے 18 مہینوں میں کمپنی قائم کر دی۔ مزید قومیانے سے بچنے کے لئے چھ نئی چھوٹی فیکٹریاں لگائیں ۔موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگامعاملات کو ترتیب دینے کے لئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری کی وجہ سے پاور سیکٹر تباہی کا شکار ہے اور اشرافیہ کا کلچر ان لوگوں کے ساتھ مل رہا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایجنسیوں سے قابل اعتماد ان پٹ ملنے کے بعد انہوں نے اعلی سطح کے ایسے افسران کو ہٹایا جو بہتر کام نہیں کر رہے تھے اور انکا ریکارڈ درست نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ مہنگائی اور قرضوں کے جال کے مسائل بھی ہیں جو کہ موت کا جال ہے۔ میں معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے لئے پاکستان کے لئے سعودی قیادت کی حمایت کو دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ٹھوس ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور بامعنی کفایت شعاری پر کام کر رہی ہے۔ حکومت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اور کسانوں کو بہترین بیج اور کھاد فراہم کر کے زراعت کو فروغ دے گی۔ اپنے معدنی وسائل اور زرخیز زمین کو استعمال کرنا ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، لائیو سٹاک اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے ملائیشیا کے وزیراعظم کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے فن و ادب خصوصا پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کے بارے میں ان کے علم کو سراہا۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نے چند کلمات اردو میں ادا کئے ۔ دونوں اطراف سے تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا اور غیر معمولی گرمجوشی دیکھنے میں آئی۔ شہباز شریف نے ملائیشیا کے تجارتی اور کاروباری وفد کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ دونوں رہنماں نے مشترکہ وزارتی کمیشن کا اگلا اجلاس جلد اسلام آباد میں منعقد کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے انور ابراہیم کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے خصوصی اجلاس کے موقع پر بل اینڈ میلنڈا گیٹس فانڈیشن کے بانی اور شریک چیئرمین بل گیٹس سے ملاقات کی،بل گیٹس نے پنجاب میں بطور وزیر اعلی شہباز شریف کی قیادت میں حفاظتی ٹیکوں اور پولیو کے حفاظتی قطروں کے پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے اس طرز کے پروگرام کو ملک بھر میں پھیلانے کی تجویز دی ۔ وزیراعظم نے مضبوط شراکت داری کو یقینی بنانے کے لیے بل گیٹس کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے انتھک محنت کر رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے دیرینہ تعاون پر بی ایم جی ایف کا شکریہ ادا کیا ۔ بل گیٹس نے پنجاب میں بطور وزیر اعلی شہباز شریف کی قیادت میں حفاظتی ٹیکوں اور پولیو کے حفاظتی قطروں کے پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے اس طرز عمل کو ملک بھر میں پھیلانے کی تجویز دی۔ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کے وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان السعود سے ملاقات کی۔ آرامکو کے سی ای او اور صدر اور اے سی ڈبلیو اے پاور کے چیئرمین بھی سعودی وزیر توانائی کے ہمراہ تھے۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے عمل کو سہل کرنے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ سعودی وزیر توانائی نے دونوں ممالک کے درمیان گہرے تاریخی برادرانہ تعلقات اور سعودی عرب کی ترقی میں پاکستانیوں کے اہم کردار کو سراہا۔ سعودی وزیر نے توانائی کے منصوبوں کی ترقی میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ولی عہد شہزادہ اور وزیر اعظم محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات کے بعد دونوں فریق اقتصادی تعاون کے ایجنڈے کو نئے جوش اور عزم کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں اپنا کام مکمل کر لیں گی اور بہت سے باہمی فائدہ مند منصوبے جلد شروع کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے سعودی عرب کے وژن اور سعودی عرب کو اقتصادی ترقی کا مرکز بنانے کے لئے کی گئی اصلاحات کی بھی تعریف کی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم سے سعودی عرب کے وزیر اقتصادیات و منصوبہ بندی انجینئر فیصل الابراہیم اور سعودی عرب کے وزیر ماحولیات و پانی و زراعت عبدالرحمن عبدالمحسن الفادلی نے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے پاکستانی زرعی شعبے کی استعداد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے لئے بریڈ باسکٹ ثابت ہو سکتا ہے اور نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لئے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سعودی وزیر برائے ماحولیات، پانی اور زراعت نے کہا کہ سعودی زرعی کمپنیاں پاکستان کے زرعی شعبے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں اور امید ہے کہ دونوں ممالک زرعی معیشت کی ویلیو چین کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ منصوبوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب زراعت کے شعبے میں پاکستان کے سٹریٹجک اور مسابقتی فوائد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پاکستانی زرعی شعبے کو تعاون کا ایک اہم شعبہ سمجھتا ہے۔ وزیر اعظم نے بڑھتے ہوئے عالمی عدم استحکام اور بحرانوں کے باوجود عالمی اقتصادی اور ترقیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سعودی عرب کے کردار کی تعریف کی۔ اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ یوکرائن جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ ہم وسیع پیمانے پر اصلاحات کرنے جا رہے ہیں۔ ہمارے سامنے مہنگائی کا شدید مسئلہ ہے۔ ہمارے گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف سے سعودی وزیر تجارت ماجد القصبی نے عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کی سائیڈ لائینز پر ملاقات کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب آئندہ دنوں میں تجارت کا حجم بڑھانے کے حوالے سے بھر پور اقدامات اٹھائے جائیں گے۔اس موقع پر سعودی وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو سرمایہ کاری اور تجارت کے حوالے سے ترجیح دے رہے ہیں۔ سعودی کاروباری برادری و تاجر برادری اور سرمایہ کاروں کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلے ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران دونوں ممالک کے معاشی اور تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لئے اہداف کا تعین کیا جا رہا ہے۔ سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی میں پاکستانیوں کا کردار انتہائی اہم رہا ہے، دونوں ممالک کے نوجوانوں اور نئی نسل میں سعودی پاکستان دوستی کے حوالے سے جذبات مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔