ضدی بچہ
عمران مذاکرت والا میٹریل ہی نہیں،ان کی اس بات کو محض سیاسی بیان سمجھ لینا مناسب نہیں تھا کیونکہ وہ سینئر سیاستدان ماضی کے کئی اہم سیاسی مذاکرات کا حصہ رہ چکے تھے۔ لیکن عمران خان کے بارے میں ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ تو جواب تھا ان کا ماضی دیکھ لیں اور حال بھی مستقبل کا اندازہ آپ خود لگا لیں گے، 2014ء میں خان صاحب نے اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دیا تو ان کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں پھر بات چیت ہوگی۔ یہ کیسے اور کیونکہ ممکن تھا ایک وزیر اعظم جس کے پاس ایوان میں سادہ اکثریت موجود ہے پارلیمان میں موجود تمام دیگر سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں ،عمران خان سے بات چیت کی کوشش کی گئی انھیں سمجھایا گیا کہ بیچ کا راستہ نکالا جاسکتا ہے لیکن وہ ضدی بچے کی طرح اڑے رہے۔ انھیں یقین تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے، وہ چار ماہ امپائر کی انگلی کا انتظار کرتے رہے اور پھر خاموشی سے گھر چلے گئے۔ وہ اگر سیاسی جماعتوں سے سنجیدہ مذاکرات کرتے تو انھیں کم از کم واپسی کا باعزت راستہ مل سکتا تھا۔
پھر جب ان کی حکومت آگئی اپوزیشن نے انتخابی نتائج پر تمام تر تحفظات کے باوجود پارلیمانی سیاست کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ یہاں خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اچھے ورکنگ ریلیشن شپ رکھ کر اپنی حکومت کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے لیکن یہاں بھی وہ اس زعم کا شکار رہے کہ اسٹیلشمنٹ ان کے ساتھ ہے انھیں کسی کی ضرورت نہیں۔ اپوزیشن کی میثاق معیشت کے لیے مذاکرات جیسی مثبت پیشکش کو انھوں نے این آر او قرار دے دیا اور ان کے ساتھ اہم اجلاسوں میں بیٹھنے سے بھی انکاری رہے۔ پھر جب ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں ہونے لگیں تو پہلے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے کی خوش فہمی کا شکار رہے اور جب کرسی نیچے سے سرکتی دکھائی دینے لگی تو اسٹیلشمنٹ کو ہی برابھلا کہنے لگے۔ یہاں بھی ان کے پاس مذاکرات کا راستہ تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جاتے اور نئے اانتخابات جیسا کوئی بیچ کا راستہ نکال لیتے لیکن یہاں بھی انھوں نے اسی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے پیغام رسانی کی کوشش کی جسے وہ سیاسی جلسوں میں تنقید کا نشانہ بنارہے تھے۔
حکومت چلی گئی اور نو مئی ہوگیا اس کے درمیان بھی بہت سے ایسے مواقع تھے جب وہ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر کوئی درمیانی اور سب کے لیے قابل قبول راستہ نکال لیتے لیکن یہاں بھی وہ اس بات پر اڑے رہے کہ حکومت فوری ختم کی جائے تب بات ہوگی، ان کے مطالبات میں بہت سے سوالات تھے جن کا ان کے پاس جواب نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے مطالبے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ ان کی نظریں سیاسی جماعتوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگی رہیں۔ عام انتخابات میں ان کے حامی ارکان کی اکثریت کی کامیابی نے انھیں بڑا سنہری موقع دیا تھا وہ سیاسی رابطے کرتے حکومت بنانے کی کوشش کرتے اور پھر اپنے مطالبات کو منوانے بلکہ خود ان پر عمل درآمد کی پوزیشن میں آجاتے لیکن یہاں بھی انھوں نے سیاسی جماعتوں کی بجائے اسٹیلشمنٹ پر ہی نظریں لگالیں۔ اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ان کی پارٹی کے رہنما کھلے عام یہ تسلیم کررہے ہیں کہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں سے جواب نہیں مل رہا۔
دوسری جانب، ان کے مطالبات کو دیکھیں عمران خان کے خلاف کیسز کا خاتمہ مینڈیٹ کی واپسی یعنی دوسرے لفظوں میں حکومت انھیں دی جائے پھر وہ مذاکرت کریں گے۔ اب سوچیں عمران خان کے خلاف کیسز عدالتوں میں ہیں ،جو ان کی جماعت نے دھاندلی کے خلاف انتخابی عذرداریاں دائر کررکھی ہیں۔ ان کا فیصلہ ٹریبونلز میں ہونا ہے تو بات چیت وہ اسٹیبلشمنٹ سے چاہتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ حکومت اور اتحادی پارلیمان میں دو تہائی اکثریت لے چکے، مرکز اور صوبوں میں تمام حکومتیں بطریق احسن فرائض انجام دینا شروع کرچکی ہیں۔ عمران خان کی جماعت اس سارے عمل میں انھیں کہیں بھی ٹف ٹائم نہیں دے پارہی تو پھر کوئی کیوں ان کے ساتھ ان سخت شرائط پر مذاکرات کرے؟ تو یہ جانتے ہوئے بھی بار بار انھیں مذاکرات کی دعوت کیوں دی جارہی ہے؟
وہ بولے کہ نئی حکومت سیٹل ہوچکی ہے، پارلیمان میں انھیں آرام دہ اکثریت مل چکی ہے، معاشی حالات بھی قابو میں آتے دکھائی دے رہے ہیں، ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی حکمران جماعت کو اعتماد دیا ہے، ان تمام چیزوں نے عمران خان کی بارگیننگ پوزیشن کمزور کی ہے۔ عمران خان کی جماعت کو مذاکرات کی پیشکش حکومت کے لیے ون ون سیچویشن ہے۔ اگر عمران خان انکار کرتے ہیں تو دنیا کو پیغام جائے گا کہ وہ سنجیدہ نہیں اور اگر خان صاحب مذاکرات کی ٹیبل پر کسی طرح آ بھی جاتے ہیں تو یہ ان کے اس بیانیے کی شکست ہوگی جس میں وہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت نہیں ہوگی اور انھیں معلوم ہے کہ خان ان کے ساتھ مذاکرات کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہی دیکھ رہا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی اسے اقتدار میں لاسکتی ہے، اگر عمران خان کے اندر کا ضدی بچہ وہی کررہا ہے جس کا فائدہ مخالفین کو ہو تو کیا ضرورت خواہ مخوا سینگ پھنسانے کی،جیسا چل رہا ہے چلتا رہے گا اس میں خان کے سوا سب خوش ہیں یہاں تک کہ اس کی پارٹی بھی۔