گھڑی برائے نمائش
اب تو عوام میں گھڑی پہننے کا رواج بہت ہی کم ہو گیا کہ موبائل فون وقت دکھا دیتا ہے لیکن خواص (ایلیٹ کلاس) میں گھڑی کا اب بھی رواج بلکہ جنون ہے۔ یہ لوگ دو طرح کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔ خواص کے غریب غربا چالیس پچاس لاکھ کی گھڑی اور مافوق الغریب غربا کروڑوں کی گھڑی پہنتے ہیں۔ وقت دیکھنا ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ گھڑی وقعت دکھانے کیلئے پہنی جاتی ہے۔ یعنی طبقہ خواص میں بھی امیر غریب کی تفریق موجود ہے۔ ’’غریب‘‘ اپنی پچاس ساٹھ لاکھ کی گھڑی دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتے اور ’’امرا‘‘ کی کروڑوں والی گھڑی دیکھ کر منہ چھپاتے ہیں۔
خیر، عوام کی حد تک وہ دور گزر گیا جب ہر ایک کی کلائی پر گھڑی ہوتی تھی۔ بہت مہنگی گھڑی تین چارسو یا حد سات سو روپے کی آ جاتی تھی، غریبوں کیلئے ’’کیمی‘‘ کمپنی نے ایک گھڑی متعارف کرائی تھی جو پچیس تیس روپے کی آ جاتی تھی لیکن کچھ غریب ایسے تھے جو یہ پچیس روپے والی گھڑی بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ ایک دیہاتی کا بیٹا دبئی چلا گیا اور پہلی تنخواہ پر باپ کو کچھ روپے بھیجے اور ساتھ ہی ایک گھڑی بھی۔
دلکش ڈائل والی چم چم کرتی گھڑی پا کر غریب کے پہلے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ پھر جب یقین آ گیا کہ یہ گھڑی اس کے بیٹے نے سچ مچ اسی کیلئے بھیجی ہے تو خوشی سے سینہ بھی پھول گیا۔ اب تمنا جاگی کہ یہ چمچماتی گھڑی دوسروں کو بھی دکھائوں۔ چنانچہ گھر سے باہر نکلا۔ بچے کھیل رہے تھے۔ اس نے گھڑی والا ہاتھ لہرا لہرا کر بچوں کو کھیل سے متعلق کچھ مفید مشورے دیئے۔ بچے حیران تھے کہ یہ گم سم سا سادہ لوح ’’چاچا‘‘ پہلے تو کبھی اس طرح کی کوچنگ نہیں کرتا تھا، آج کیا ہو گیا۔ پھر وہ مسجد جا پہنچا۔ صفیں تیار تھیں، جماعت کھڑی ہونے میں ایک آدھ منٹ باقی تھا۔ اس نے گھڑی والا ہاتھ لہرایا اور کہا، یہ صف اس طرف سے ٹیڑھی ٹیڑھی لگتی ہے۔ نمازیوں نے کہا نہیں چاچا صف بالکل سیدھی ہے اور آج سے نہیں مدّت سے سیدھی ہے۔ اس نے گھڑی والا ہاتھ دوسری طرف لہرایا اور کہا کہ پھر اس طرف سے ٹیڑھی ہو گی۔ جواب ملا کہ نہیں ، ادھر بھی بالکل سیدھی ہے۔ ا س نے پھر ہاتھ لہرایا اور کہا کہ سیدھی ہے تو سیدھی ہی ہو گی۔ اتنے میں جماعت کھڑی ہو گئی۔
نماز کے بعد نمازی آپس میں بات کرنے لگے کہ آج چاچا کو کیا ہوا۔ ایک سیانے نے کہا دیکھا نہیں، اس کی کلائی میں نئی چمکتی ہوئی گھڑی تھی۔ بے چارہ اسی کو دکھانا چاہتا تھا۔ سب ہنس پڑے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے کیا ہو رہا ہے؟۔ یہ ہو رہا ہے کہ ایک ریٹائرڈ بزرگوار ہر ہفتے اپنے پسندیدہ رپورٹر کو ایک خبر ’’فیڈ‘‘ کرتے ہیں کہ لودھی صاحب قومی مصالحت کیلئے سرگرم ہو گئے۔ رپورٹر صاحب یہ خبر باقاعدگی سے اسے صفحہ اوّل پر چھاپ دیتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ موصوف کو سرگرم ہونے کیلئے کس نے درخواست کی ہے۔ یا پھر یہ کہ وہ ازخود نوٹس کے تحت سرگرم ہوئے ہیں۔
معلوم نہیں، ان بزرگوار کو کس نے اور کیسی گھڑی بھیجی ہے کہ گھر پر بیٹھ کر آرام کرنے، عشرتِ رفتہ کی یادیں تازہ کرنے کے بجائے یہ گھڑی دکھانے کیلئے بیچ بازار نکل آئے ہیں۔
______
گھڑی دکھانے کے تازہ ترین ’’ایپی سوڈ‘‘ میں انہوں نے سرگرمی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پورا مصالحتی فارمولا بھی پیش کر دیا ہے جس میں یہ فیاضی دکھائی گئی ہے کہ اگر حکومت مصالحت پر آمادہ ہو جائے تو اسے ’’دو سال‘‘ کی مدّت دی جا سکتی ہے یعنی وہ دو برس تک بلا کھٹکے حکومت کر سکتی ہے۔ بدلے میں اسے بس گریٹ خان کو رہا کرنا ہو گا۔
فیاضی قابل داد ہے لیکن اس فیاضی کی طلب گاری کس نے کی ہے؟۔ معلومات کے مطابق کسی نے نہیں، یہ فیاضی بھی انہوں نے ازخود نوٹس کے تحت کی ہے۔
حکومت کتنی مدّت تک حکمرانی کر سکتی ہے۔ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرتی ہے یا پھر ملک احتجاجی مظاہروں کے طوفان کی زد میں ہو تو حکومت اور اپوزیشن مل کر مذاکراتی عمل کے تحت مڈٹرم الیکشن کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کیا ملک میں کوئی احتجاجی تحریک چل رہی ہے؟ بازار بند ہیں؟ ، ہڑتالیں ہو رہی ہیں؟ سٹاک مارکیٹ کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے (جیسا کہ گریٹ خان کے دور میں ہر روز بیٹھا کرتا تھا)، کیا کاروبار زندگی معطل ہے؟۔ مرکزی مطالبہ ہے کہ گریٹ خان کو رہا کر دو۔ خان کو سزائیں ججوں نے سنائیں وہ چاہیں تو کل ہی ختم کر دیں لیکن عدلیہ کے فیصلے حکومت کس قانون سازی کے ذریعے ختم کر سکتی ہے؟
ایسا کچھ نہیں ہے۔ پھر کیا ماجرا ہے۔ بظاہر گھڑی دکھانے کی تمنّا سے زیادہ کا نہیں لگتا۔
_____
مصالحتی فارمولے کے آخر میں انہوں نے کسی ’’آنے والے طوفان‘‘ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ لال حویلی والے یوگ راج تو سیاست سے ریٹائر ہو چکے، لگتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنا ’’شغل‘‘ ریٹائرڈ بزرگوار کے سپرد کر دیا ہے کہ آنے والے طوفانوں، سونامیوں، لہو کے بہتے دھاروں کی خبریں آج سے تم دیا کرو۔
حکومت کیوں مذاکرات کرے؟۔ اس کی پوزیشن مستحکم ہے بلکہ مزید مستحکم ہو گئی ہے۔ معاشی بحران سے نکل گئی ہے، سعودیہ سے چین تک اور آئی ایم ایف سے ورلڈ بنک تک سبھی مدد کو آ گئے ہیں، تمام عالمی مالیاتی ادارے معاشی صورت حال کی بہتری، مہنگائی ، بے روزگاری میں کمی کی خبر سنا رہے ہیں۔ اپوزیشن چند درجن افراد سے زیادہ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں دو سال سے ناکام چلی آ رہی ہے۔ حکومت کو مذاکرات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟۔ حکومت نے اگر مذاکرات کرنے ہیں تو وہ ٹی وی چینلز کے مالکان سے کر سکتی ہے کہ سارا طوفان، سارا ہیجان اور جملہ بحران ٹی وی سکرینوں تک محدود ہے۔
ابلاغیات گروپوں سے بھی گزارش ہے کہ انہوں نے بزرگوار کی نئی چم چم کرتی، ازخود نوٹس والی گھڑی خوب دکھا لی، اب ذرا وقفہ فرمائیں۔
چلتے چلتے، منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے یہ خبر ملاحظہ فرمائیں کہ پختونخواہ صوبے میں جس جج کو طالبان نے اغوا کیا تھا، گنڈا پور صاحب کی حکومت نے سرکاری فنڈ سے 8 کروڑ روپے تاوان ادا کر کے رہا کرا لیا ہے۔ بات سمجھ میں آئی؟۔ طالبان کو سرکاری فنڈ سے ’’عطیات‘‘ کی سخت ضرورت ہے سو یہ ’’صدقہ جاریہ‘‘ اب نئے انداز سے جاری کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اغوا برائے تاوان کی مزید خوشخبریاں سننے کیلئے تیار رہیں۔