• news

وزیراعظم کی سعودی ولی عہد اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں

سعودی دارالحکومت ریاض میں واقع عالمی اقتصادی فورم کا خصوصی اجلاس پاکستان کے لیے اس لحاظ سے زیادہ سود مند ثابت ہوا کہ اس موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر کے ملک کی معاشی بہتری میں تعاون کے لیے یقین دہانیاں حاصل کیں۔ پاکستان اس وقت جن سنگین اقتصادی مسائل کا شکار ہے ان پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان دوست ممالک اور ایسے عالمی و بین الاقوامی اداروں کا تعاون حاصل کرے جو واقعی پاکستان کو اس کے پاو¿ں پر کھڑا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب نے مختلف مواقع پر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا ایسا دوست ہے جس پر مشکل حالات میں انحصار کیا جاسکتا ہے۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم نے سعودی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور معاشی حوالے سے مزید تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس سلسلے کی سب سے اہم ملاقات وزیراعظم اور سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کے مابین ہوئی جس میں دونوں رہنماو¿ں نے مکہ مکرمہ میں ہونے والی اپنی ملاقات میں کیے گئے فیصلوں پر پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیجنے اور سر مایہ کاری کے حوالے سے مزید وفود کو پاکستان بھیجنے کے حوالے سے ولی عہد کا شکریہ ادا کیا اور سعودی ولی عہد کو دورہ¿ پاکستان کی دعوت کا اعادہ کیا۔
عالمی اقتصادی فورم کے اختتامی سیشن کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان معیشت کی بہتری کے لیے بنیادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، ہمیں موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہوئے ہیں، نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور فنی تربیت کی فراہمی کے ذریعے ہم انھیں اپنا روزگار شروع کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں تنازعہ کے باعث دنیا بھر میں اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور اس مہنگائی نے ترقی پذیر ممالک کی کمر توڑ دی۔ وزیراعظم نے یہ بالکل درست کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جن کا موسمیاتی تبدیلی کی وجوہ سے کوئی تعلق نہیں، اخراج میں ہمارا حصہ ایک فیصد کا بھی نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی اپنے دورہ¿ پاکستان کے موقع پر اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے دنیا بھر میں جو موسمیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں ان کی قیمت ترقی پذیر ممالک کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔
سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان السعود سے ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم نے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے عمل کو سہل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر آرامکو کے سی ای او اور صدر اور اے سی ڈبلیو اے پاور کے چیئرمین بھی سعودی وزیر توانائی کے ہمراہ تھے۔ سعودی وزیر توانائی نے دونوں ممالک کے درمیان گہرے تاریخی برادرانہ تعلقات اور سعودی عرب کی ترقی میں پاکستانیوں کے اہم کردار کو سراہا اور توانائی کے منصوبوں کی ترقی میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں اپنا کام مکمل کر لیں گی اور بہت سے باہمی فائدہ مند منصوبے جلد شروع کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے سعودی عرب کے وژن اور سعودی عرب کو اقتصادی ترقی کا مرکز بنانے کے لیے کی گئی اصلاحات کی بھی تعریف کی۔
اسی نوعیت کی ایک ملاقات سعودی وزیر اقتصادیات و منصوبہ بندی انجینئر فیصل الابراہیم اور سعودی عرب کے وزیر ماحولیات و پانی و زراعت عبدالرحمن عبدالمحسن الفادلی سے بھی ہوئی جس میں شہباز شریف نے پاکستانی زرعی شعبے کی استعداد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے لیے بریڈ باسکٹ ثابت ہو سکتا ہے اور نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سعودی وزیر برائے ماحولیات، پانی اور زراعت نے کہا کہ سعودی زرعی کمپنیاں پاکستان کے زرعی شعبے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں اور امید ہے کہ دونوں ممالک زرعی معیشت کی ویلیو چین کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ منصوبوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب زراعت کے شعبے میں پاکستان کے سٹریٹجک اور مسابقتی فوائد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پاکستانی زرعی شعبے کو تعاون کا ایک اہم شعبہ سمجھتا ہے۔
اسی طرح سعودی وزیر تجارت ماجد القصبی سے ہوئی ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب آئندہ دنوں میں تجارت کا حجم بڑھانے کے حوالے سے بھر پور اقدامات کیے جائیں گے۔اس موقع پر سعودی وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو سرمایہ کاری اور تجارت کے حوالے سے ترجیح دے رہے ہیں۔ سعودی کاروباری برادری و تاجر برادری اور سرمایہ کاروں کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگلے ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران دونوں ممالک کے معاشی اور تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے اہداف کا تعین کیا جا رہا ہے۔ سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی میں پاکستانیوں کا کردار انتہائی اہم رہا ہے، دونوں ممالک کے نوجوانوں اور نئی نسل میں سعودی پاکستان دوستی کے حوالے سے جذبات مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ غزہ میں جاری دہشت گرد اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے اور اس کا اثر عالمی منڈیوں پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا بھر کی معاشی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ جنگ و جدل کا راستہ ترک کیا جائے اور وسائل کو ان کاموں پر لگایا جائے جن سے عالمی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آسکیں۔ پاکستان سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ مل کر اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہ رہا ہے جس کا فائدہ صرف ان ممالک یا اس خطے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہوگا۔ سعودی عرب کا تعاون ماضی میں بھی پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوا اور آئندہ بھی اس کی وجہ سے استحکام پیدا ہونے کا امکان ہے۔ کورونا ، سیلاب اور زلزلے کے موقع پر دنیا نے پاکستان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا اور اس سلسلے میں برا در سعودی عرب سر فہرست رہا۔ اس وقت مسلم دنیا کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ مسلم دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ٹھوس بنیادوں پر پالیسی بنانا چاہیے، مسلم دنیا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جنھیں بروئے کار لا کر مسلم دنیا طاقتور اور مستحکم بن سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن