• news

مزدوروں کا عالمی دن اور حکومتی رویّے

آج مزدوروں کا عالمی دن ہے‘ دنیا بھر کے مزدور اپنے حقوق کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں‘ لیبر ڈے ان مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے امریکہ کے شہر شکاگو میں یکم مئی 1886ءکو اپنے اوقات کار 16 گھنٹے سے 8 گھنٹے کرانے کے لیے پر امن احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر پولیس نے گولی چلا دی‘ مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید پرچم تھے جو امن کی علامت تھے- پولیس کی فائرنگ سے درجنوں مزدور جان بحق ہو گئے‘ چار مزدور لیڈروں کو پھانسی دی گئی جن میں سے ایک مزدور اینجل نے پھانسی کے پھندے کو اپنے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا '' سرمایہ دارو تم ہمیں مار سکتے ہو لیکن ہماری تحریک کو ختم نہیں کر سکتے‘ تب سے آج تک دنیا کے ایک طبقہ سے تعلق رکھنے والے مزدور ہر سال یہ دن مناتے ہیں‘ تاہم دین رحمت کا اپنا ایک پیغام ہے‘ نبی رحمتﷺ کا پیغام ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے اس کی اجرت دو‘ یہی اسلام کا آفاقی پیغام ہے ہر مزدور کے حوالے سے‘ مگر مزدور کا فرض ہے کہ جب وہ کام کرے تو پسینہ ضرور بہائے‘ کام چوری کی اجرت کوئی نہیں دے گا‘ ان دنوں ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے‘ اور ملک میں بے روزگاری کا بھی رونا رویا جارہا ہے‘ چلیئے ذرا دیہاتوں میں جاکر کر معلوم کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے گندم کی کٹائی کے لیے مزدوروں سے آس لگا رکھی ہے انہیں کوئی مزدور اس کام کیے میسر بھی ہے یا نہیں‘. اب تو لنگر دسترخوانوں نے کام ہی آسان کردیا ہے‘ ایک بار نبی رحمت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا‘ اور کچھ مالی امداد کی درخواست کی‘ نبی رحمت ﷺ نے اسے کلہاڑا لے کر دیا کہ جاﺅ لکڑیاں کاٹو اور مزدوری کرکے بیچو‘ نبی کی اس ہدایت میں برکت بھی اور ایک سبق بھی تھا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ شخص دوبارہ حاضر ہوا‘ اور خوشی سے بتایا کہ اس محنت کے نتیجے میں اب اسکے پاس بہت مال اسباب آگیا ہے‘ ہم ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہیں‘ آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے کیا کبھی سوچا کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے مطابق معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں انصاف بھی ہو‘ اور تحفظ بھی۔ آجر اور اجیر دونوں اللہ کا خوف دل میں رکھ کر کام کریں‘ ہمارے ملک میں انتہاءدرجے کی نا انصافی نے معاشرے کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘ حقیقیت یہ ہے کہ کوئی مزدور مزدوری کرکے روزی کمانے کو تیار نہیں‘ اور آجر کسی اجیر کو اس کی مزدوری دینے کو تیار نہیں ہے‘ ہاں البتہ ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے‘ نعرے لگائے جاتے ہیں اور یوں دن گزر جاتا ہے‘ کسی کو مزدور کا علم ہے اور مزدور کے مسائل کا ادراک‘ یکم مئی کو شکاگو کے شہیدوں کی یاد منانے کے لیے دنیا کے ہر ملک میں مظاہرے کئے جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شکاگو کے مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید پرچم تھے مگر آج مزدوروں کے ہاتھوں میں سرخ پرچم ہوتے ہیں جو مزدور شہیدوں کے خون کی علامت ہیں‘پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کسی نہ کسی رنگ میں جاری ہے۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک استحصال کا خاتمہ نہیں ہو جاتا‘ یہ قانون قدرت نہیں ہے کہ مزدور کے گھر میں برسوں مزدور ہی پیدا ہوتے رہیں اور جو کسان دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ہے اس کے بچے نان جویں کو ترسیں‘ کپڑا بننے والے محنت کشوں کو اپنے بچوں کے جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہ آئے ‘ ملک میں اگرچہ بھٹو دور میں مزدوروں اور محنت کشوں کے لیے پہلی جامع لیبر پالیسی لائی گئی تھی‘ مگر جنرل محمد ضیاءالحق شہید کے دور میں اسے مذید بہتر اور جامع بنایا گیا۔ افسوس آج ملک میں قانون ہے مگر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پاکستان کے مزدور اور محنت کش عوام لاوارث ہو چکے ہیں‘ پاکستان کے مزدوروں اور محنت کشوں کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزدوروں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک روز ایک مزدور آپ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اور اس نے بنی پاک ﷺ سے مصافحہ کیا‘ اس کے کپڑے میلے کچیلے تھے اور ہاتھ سخت‘ اس کے سخت کھردرے ہاتھ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا کام کرتے ہو اس نے کہا پہاڑ کی چٹان کاٹ کر روزی کماتا ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے‘ بنی اکرم ﷺ نے کہا کہ ہاتھ سے محنت کرنے والے ہاتھ سخت ہوجائیں تو وہ ہاتھ اس قابل ہیں کہ انہیں نوبت بوسہ دے‘ اور نبی نے اس مزدور کا ہاتھ چوم لیا‘ علامہ اقبال نے کہا تھا
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
آج بھی پاکستان میں مزدوروں کو ان کی محنت کی پوری اجرت نہیں دی جاتی‘موجودہ حالات میں مزدور محنت کش عوام زندگی کے پل صراط سے گزر رہے ہیں خود کشیاں ان کا مقدر بن چکی ہیں‘ ان کے پھول جیسے بچے خوراک دوائیں اور صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں‘ امیروں کے کتے دودھ پیتے اور امپورٹڈ خوراک کھاتے ہیں، مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ ایوان صدر اور پرائم منسٹر سیکریٹریٹ پر ہر روز کروڑوں روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ اسلامی نظام ہے اور نہ ہی جمہوریت ہے۔ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے محنت کش عوام کا جینا حرام کر دیا ہے بیڈ گورننس کی وجہ سے ہر با اثر شخص عوام کا استحصال کرنے میں آزاد ہے۔
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی 
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن