• news

 سپریم کورٹ سے سیاسی مسائل کے حل کی طلب

منگل کی صبح روزمرہّ فرائض کو جلدی سے نبٹا کر ٹی وی کھول لیا۔ سپریم کورٹ میں اس روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6معزز صاحبان کے لکھے ایک خط کے حوالے سے اٹھے سوالات پر غور کیلئے چھ رکنی بنچ نے بیٹھنا تھا۔ جو کارروائی ہوئی اسے آغاز سے انجام تک بہت غور سے دیکھا اور سنا۔ اس کالم کے ذریعے تبصرہ آرائی کو مگر جی نہیں چاہ رہا۔ بنیادی وجہ بزدلی ہے جو رزق کی خاطر روایتی صحافت میں شامل ہوتے ہی جبلت کا حصہ بن گئی تھی۔ اس کے علاوہ جو خیالات عدالتی کارروائی کو دیکھتے ہوئے ذہن میں آئے وہ موضوع سے کنی کتراتے نظر آئیں گے۔
کسی بھی معاشرے میں امن وسکون یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ وہاں کا نظام عدل عام آدمی کی دسترس میں ہونے کے علاوہ حکمرانوں کی من مانیوں کو لگام ڈالنے کے قابل بھی نظر آئے۔ اس حوالے سے غور کرتے ہوئے ہاتھ باندھ کر یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے ہاں نظام عدل مذکورہ معیار کو قیام پاکستان کے بعد شاذہی چھوتا نظر آیا۔ اپنی ذات پر گزرے صدموں کو بھلاکر محض سیاسی رپورٹر کی یادداشت ہی بروئے کار لائوں تو مشاہدے میں آئے بے شمار واقعات بے بسی ولاچاری کا احساس دلانے کے علاوہ چند مضحکہ خیز پہلوئوں کی بابت بھی حیران ہونے کو مجبور کردیتے ہیں۔
مئی 1988ء  میں جنرل ضیاء نے اپنے ہاتھوں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی قومی اسمبلی کے نامزدکردہ قائد ایوان یعنی وزیر اعظم کو اسمبلی توڑ کر گھر بھیج دیا تھا۔ اسمبلی کی تحلیل کے خلاف آئین کے دیوانگی کی حد تک محافظ مانے حاجی سیف اللہ خان نے سپریم کورٹ کے روبرو ایک درخواست دائر کردی۔ اس درخواست کی شنوائی کی تاریخ مقررہی نہ ہوپائی۔ پھر اگست 1988ء کی 17تاریخ کو ایک فضائی حادثہ ہوگیا۔ جنرل ضیاء اس کی وجہ سے جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات نے پاکستان کے سیاسی بحران کو خوفناک حد تک سنگین بنادیا۔ حالات معمول پر لانے کی کاوشیں شروع ہوئیں تو ان دنوں کی سپریم کورٹ نے بھی اس میں حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیااور حاجی سیف اللہ کی دائر کردہ اپیل کو روزانہ کی بنیاد پر زیرغور لانا شروع کردیا۔
چند سماعتوں کے بعد بہت تیزی سے تاثر یہ پھیلا کہ حالات جنرل ضیاء کی برطرف کردہ اسمبلی کی بحالی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذکورہ تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملی جب اپنی برطرفی کے بعد مسلسل گوشہ نشین ہوئے محمد خان جونیجو مرحوم سندھ سے ’’اچانک‘‘ اسلام آباد آگئے۔ یہاں وہ حامد ناصر چٹھہ کی E-11 سیکٹر میں واقع قیام گاہ پر رہائش پذیر تھے۔ان سے ملاقات کو صحافیوں اور 1988ء کی برطرف شدہ اسمبلی کے اراکین کو چٹھہ صاحب کے ہاں بنائی انتظار گاہ میں کافی وقت صرف کرنا پڑتا۔
اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں لیکن پھر ایک افواہ گردش کرنے لگی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ان دنوں کے آرمی چیف -اسلم بیگ- جونیجو اسمبلی کی بحالی کے امکانات سے خوش نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئے انتخابات ہوں اور ان کے نتیجے میں قائم ہوئے منتخب ایوانوں کی بدولت پاکستان میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ بحال ہونے کی راہ بنے۔ مبینہ طورپر وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت کو ان کی خواہش پہنچادی گئی۔ شاید اس کی وجہ ہی سے بالآخر جو فیصلہ آیا وہ حیران کن تھا۔
مذکورہ فیصلے نے جنرل ضیاء کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی تحلیل کو ’’غیر آئینی وخلافِ قانون‘‘ ٹھہرایا۔ ’’غیر آئینی‘‘ طورپر تحلیل ہوئی اسمبلی کو بحال کرنے کے بجائے مگر یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے اس لئے عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقعہ دیا جائے۔ ’’عوام کی رائے‘‘ سے تاہم جو اسمبلی قائم ہوئی اسے بھی جنرل ضیاء کے بعد ایوان صدر میں بیٹھے غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء  میں برطرف کردیا۔ برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اب کی بار صدر کے ہاتھوں منتخب وزیر اعظم کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کو جائز وواجب قراردیا۔
غلام اسحاق خان ہی نے بعدازاں 1993ء میں ایک اور اسمبلی کو برطرف کردیا۔ نواز شریف مذکورہ اسمبلی کے قائد تھے۔اس برطرفی کے خلاف اپیل دائر ہوئی تو نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعتوں کے انجام پر 1990ء میں قائم ہوئی اسمبلی کی برطرفی کو غیر آئینی ٹھہرا کر بحال کردیا۔ نواز حکومت اس کے باوجود ٹک نہ پائی۔ ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کے طے شدہ فارمولے کے مطابق نئے انتخابات کا ا نعقاد ہوا۔ مضحکہ خیز حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی حکومت بحال کرنے والا ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آج بھی پارلیمان کی اندرونی دیواروں پر جلی حروف میں کنندہ ہے۔ اس فیصلے کے ہوتے ہوئے بھی بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت اور 1993ء  میں قائم ہوئی اسمبلی کی برطرفی کو سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے جائز اور واجب قراردیا۔
جونیجو، نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں اور انہیں برسراقتدار رکھنے والی قومی اسمبلیوں کے ساتھ جو ہوا اس کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے میں بالآخر یہ طے کرنے کو مجبور ہوگیا کہ ’’سپریم کورٹ‘‘ بنیادی طورپر اپنے چیف جسٹس کے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے۔ کم از کم سیاسی سوالات کے حوالے سے یہ چند اٹل شمار ہوتے ’’اصول‘‘ طے نہیں کرپائی۔ اسی باعث آئین میں آرٹیکل 6کے ہوتے ہوئے بھی جب اکتوبر1999ء  میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں ایک اور مارشل لاء لگایا تو وہ بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں جائز شمار ہوا۔
1985ء سے 1999ء  کے مارشل لاء تک جو واقعات بطور متحرک رپورٹر دیکھنے کو ملے ان کی بدولت سپریم کورٹ سے سیاسی مسائل کے حل کی طلب مجھے کاربے سود محسوس ہوتی ہے۔ دورِ حاضر کے نوجوان صحافی مگر اس بڈھے کو مسلسل سمجھا رہے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔موبائل فونز اور سوشل میڈیا نے عام آدمی کو خوئے غلامی سے نجات دلادی ہے۔عام آدمی کے خبر اور شعور سے مالا مال ہوجانے کے بعد ہمارے ہاں نظام عدل کے چند کلیدی کردار بھی پاکستانیوں کو ’’رعایا‘‘ کے بجائے ’’شہری دیکھنے کی متمنی ہیں اور نہایت لگن سے خواہش مند ہیں کہ وطن عزیز میں آئین کے فراہم کردہ بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6معزز ججوں کی جانب سے لکھے خط کی وجہ سے سپریم کورٹ میں جاری سماعتوں کو اسی باعث امید بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ میں فقط دْعا ہی مانگ سکتا ہوں کہ معصوم دلوں میں ابھری نیک تمنائیں بالآخر مایوسی کی زد میں نہ آئیں۔ میری نسل نے ’’عوامی ابھار‘‘ کی مختلف لہروں کے انجام پر اداسی اور مایوسی کی جن کیفیات کو بھگتا ہے ربّ کریم نئی نسل کو ان سے محفوظ رکھے۔

ای پیپر-دی نیشن