• news

 مسنگ پرسنز، پردے کے پیچھے چھپی دہشت گردی

اگر ہم بلوچستان میں ہونے والے واقعات اور مجموعی صورتحال کا جائزہ لیں تو ملک دشمن غیر ملکی ایجنسیوں اور دہشت گردوں کو جب اپنی ناکامی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد (مسنگ پرسنز) کا معاملہ پوری تندہی سے سر اٹھا لیتا ہے۔ اس طرح کے عمل سے دو طرح کے فائدے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ایک ریاست کو اندرونی معاملات میں الجھائے رکھنا۔ دوسرا نیا منصوبہ تشکیل دینا اور اپنے سہولت کاروں کو بچانے کی کوشش کرنا۔ چند ماہ قبل مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں طویل لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد اسلام آباد میں دھرنا دینا تھا اس طرح دھرنے کو لے کر اندرون ملک اور بیرونِ ملک تبصرے کیے گئے۔ اس دھرنے کے دوران دو تین واقعات ایسے ہوئے جن سے مسنگ پرسنز کے پیچیدہ معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ جب پاکستان نے ایران میں موجود دہشت گردوں کے خلاف محدود میزائل اپریشن کیے جس میں درجنوں بلوچ دہشت گرد مارے گئے جس پر ماہ رنگ بلوچ نے تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے لواحقین اس دھرنے میں موجود ہیں۔ اس بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مارے گئے افراد جبری گمشدہ نہ تھے بلکہ دہشت گرد تھے جو اپنی مرضی سے ایران گئے۔ دوسرا اسی دوران کوسٹل ہائی وے پر مسافر بس کو روک کر زبردستی مسافروں کو نیچے اتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے غیر بلوچوں کو بے رحمانہ طریقے پر قتل کیا گیا جن کا تعلق دوسرے اضلاح سے تھا جو محنت مزدوری کی غرض سے بلوچستان گئے۔ اس وحشیانہ کارروائی کی زمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی بی ایل اے۔ نے قبول کی اس دھرنے کی کوریج کرنے والی خاتون رپورٹر نے ماہ رنگ بلوچ سے بی ایل اے کی اس درندہ صفت کارروائی کی مذمت چاہی لیکن ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کی اس کارروائی کی مذمت کرنے کے بجائے دائیں بائیں کی ہانکتے ہوئے معاملہ گول کر گئی اور ہر سوال کے جواب میں یہی کہتی رہی کہ اپنی ریاست سے پوچھو۔ یہ عجیب طرز عمل تھا لگ ایسے رہا تھا کہ ماہ رنگ بلوچ کسی دوسرے ملک سے اٹھ کر اسلام اباد آ بیٹھی ہے۔ اب یہ سارا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا کراچی ہائی کورٹ میں زہر سماعت ہے۔ اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری فوج کے جوانوں اور دیگر اداروں کے اہلکاروں نیاس وطن اور اپنی قوم کی حفاظت کے لیے جو جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں ہم اسے راہیگا ں  نہیں جانے دیں گے۔ ہمیں لاپتہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی ہے مگر ان لوگوں سے نہیں جو معصوم لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں اور نہ ہی ایسے لوگوں سے جو دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک گہرا اور پیچیدہ معاملہ ہے جو برسوں سے ایک چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس مسئلے سے متعدد بے بنیاد افسانے جڑے ہوئے ہیں، جن کا اصل حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان غلط فہمیوں میں یہ عقائد بھی شامل ہیں کہ تمام لاپتہ افراد کو سیکیورٹی فورسز یا انٹیلی جنس ایجنسیوں نے گرفتار کیا ہے، کہ یہ قوتیں قانون سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہیں اور کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں، مزید یہ کہ لاپتہ افراد کے حقوق کو مستقل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ خرافات پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کی حقیقی نوعیت کو مسخ کر رہی ہیں۔
لاپتہ افراد ایک عالمی رجحان ہے اور متعدد وجوہات پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر صرف سیکورٹی فورسز پر توجہ مرکوز کرتی ہیں لیکن آسانی سے اصل عوامل/زمینی حقائق کو سراسر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ رضاکارانہ طور پر گمشدگی کو جبری گمشدگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس میں کئی ایسے معاملات پائے گئے ہیں جہاں افراد اپنی مرضی سے، اپنے اہل خانہ کو بتائے بغیر روپوش ہو گئے۔ مزید برآں، تحقیقات کے دوران، بہت سے ایسے معاملات سامنے آئے جہاں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی گرفتاری سے بچنے کے لیے افراد اپنی مرضی سے غائب ہو گئے۔ ایک اور بڑا مسئلہ لاوارث نعشوں کی شناخت میں درپیش مشکلات ہیں۔ 
ایدھی اور چھیپا کے محتاط اعداد و شمار کے مطابق 2005ء سے اب تک ملک بھر میں صرف ان دو این جی اوز کے ذریعے 35,000 سے زیادہ لاوارث نعشوں کو دفن کیا جا چکا ہے۔
اگر دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ لاپتہ افراد ایک اہم مسئلہ ہے جو عالمی سطح پر ممالک کو متاثر کرتا ہے ، بشمول امریکہ ، برطانیہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک - قابل اعتماد ذرائع کی بنیاد پر مختلف ممالک سے لاپتہ افراد کی رپورٹوں کا موازنہ اس مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔
 امریکہ میں ، نیشنل کرائم انفارمیشن سینٹر (این سی آئی سی) نے ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی اپنی 2021ء کی رپورٹ میں 521 ، 705 کیس رپورٹ کیے۔ برطانیہ کے لاپتہ افراد یونٹ (ایم پی یو) کی 2020/21ء کی ڈیٹا رپورٹ میں 241,064 کیسوں کی دستاویز کی گئی۔ جرمنی میں 2018ء کی ایک نیوز رپورٹ میں 11,000 لاپتہ افراد کا حوالہ دیا گیا۔ ہندوستان میں 2018ء  میں کیسوں کی تعداد 347,524 تک پہنچ گئی۔ غیر ارادی گمشدگیوں کے خلاف ایشیائی فیڈریشن (اے ایف اے ڈی) نے رپورٹ دی ہے کہ ہندوستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر (آئی او جے اینڈ کے) میں 1989ء  سے 2012ء  تک 8,000 مقدمات تھے۔ نیپال میں سال 2020/21ء میں 10,418 کیس رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار لاپتہ افراد کے معاملات کی وسیع نوعیت اور اس مسئلے سے نمٹنے میں ممالک کو درپیش جاری چیلنجوں کی وضاحت کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان میں ’’لاپتہ افراد‘‘ کے معاملے کی ابتدا سوویت افغان جنگ کے بعد 1990ء کی دہائی کے وسط سے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران، ہماری عدلیہ کے بعض فیصلوں کے نتیجے میں دہشتگردی میں ملوث بہت سے مشتبہ افراد کو رہا کیا ہے، جس کے باعث انہیں پاکستان بھر میں مزید دہشتگردانہ کارروائیاں اور تشدد کرنے کی ہمت ملی ہے۔
(جاری)

ای پیپر-دی نیشن