• news

ایف بی آر ریفارمز وزیراعظم کی ترجیحات میں شامل، آئی ایم ایف محکموں کی گورننس درست کرنے کا کہہ رہا: وفاقی وز را

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ٹیکس محصولات میں اضافہ ، ٹیکس دہندگان کو سہولیات کی فراہمی اور غریب آدمی کی بہتری کیلئے ٹیکس کے قانون میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، بجلی چوری کی روک تھام اور ٹیکس کی ادائیگی ہمارا قومی فرض ہے، زیراعظم اور وفاقی کابینہ ٹیکس دہندگان کی سہولیات میں اضافہ کیلئے پرعزم ہیں، محصولات میں اضافے سے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند افراد کو فائدہ ہو گا۔ ایف بی آر میں سارے تبادلے اور تقرریاں خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا وغیرہ پر جو چیز حکومتی اقدمات کے حوالہ سے زیر بحث ہو تو اس پر میڈیا کی تجاویز لی جائیں اور اپنا موقف بھی پیش کیا جائے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی اصلاحات کے ایجنڈا کے حوالے سے وزیر قانون نے کہا کہ ایف بی آر کی ریفارمز کا ایجنڈا وزیراعظم کی ترجیحات میں سے ایک تھا۔ پاکستان جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کے بہت سارے طریقے ہیں لیکن اس میں سب سے زیادہ ضروری چیز اقدامات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹیکس چوری روکی جائے، ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے، جو لوگ کروڑوں کما رہے ہیں ٹیکس نہیں دے رہے، انہیں ٹیکس دینا چاہیے، وہ ٹیکس کے دائرہ کار میں موجود ہی نہیں ہیں، آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ان سے ٹیکس وصول کیا جائے تاکہ غریب آدمی پر خرچ ہوسکے، بجلی چوری روکی جائے تاکہ عام آدمی پر بجلی کے بلزکا بوجھ کم ہو کیونکہ لائن لاسز کے نام پر یہ بوجھ عام آدمی کو منتقل ہو جاتا ہے، آئی ایم ایف محکموں کی گورننس کی بہتری کی بات کرتا ہے تاکہ عوامی تک خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے، اسی طرح غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول کی بات کی جاتی ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرے خیال میں یہ سب اقدامات ہم کو بحیثیت قوم اور حکومت خود کرنے چاہیئں۔ وزیراعظم نے اس پروگرام کو سامنے رکھتے ہوئے ایف بی آر میں اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا اور میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے سات ہفتوں میں جب سے انہوں نے حکومت سنبھالی ہے، اس وقت سے لے کر اب تک وزیراعظم نے انفرادی طور پر جس محکمہ کی میٹنگز میں سب سے زیادہ شرکت کی ہے وہ ایف بی آر سے متعلق ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ ایف بی آر میں موجودہ ڈھانچہ میں گورننس کی بہتری اور لیگل ایشوز کے خاتمہ سے اس کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2700 ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس کے کیسز زیر التوا ہیں جبکہ ہم 50، 50 ارب روپے کے لئے بڑی مشکلات سے گزرتے ہیں تاکہ فنانشل سپیس نکالی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کمشنر ان لینڈ ریونیو ، ٹیکس ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتوں میں یہ کیسز سٹے آرڈرز کی نذر ہیں، ریکوری رکی پڑی ہے۔  ان میں سے سارے کیسز ایسے نہیں ہوں گے جو فوری طور پر حل طلب ہیں۔ بعض کیسز پیچیدہ ہوتے ہیں، بعض اسیسمنٹ بھی درست نہیں ہوتیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم کا موقف یہ ہے کہ جو بھی صورتحال ہو ان کیسز کے فیصلے ہونے چاہئیں۔ فیصلوں کے لئے ایک میکنزم کی ضرورت ہے، کہا جاتا تھا کہ قانون میں بعض ایسی موشگافیاں ہیں جس کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہو پاتے۔ وزیر قانون نے کہا کہ پارلیمان نے جو پہلا قانون پاس کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وہ اسی بابت تھا کہ جو ٹیکس ٹربیونلز اور ٹیکس کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی (عدالتی چارہ جوئی) میں ترامیم کی گئی ہیں۔ قبل ازیں سارے کیسز اسیسمنٹ کے بعد کمشنر اپیلز کے پاس جاتے تھے، پھر وہاں سے ایک اور اپیل ان لینڈ ریونیو ٹربیونلز میں جاتی تھی، اس کے بعد ہائی کورٹ میں (قانونی سوال پر) ایک ریفرنس دائر ہوتا تھا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس حوالہ سے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی جس میں تمام اتحادی جماعتوں نمائندگی تھی اور اس میں اعلیٰ قانون دان بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان ٹیکس بار کونسل کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا اور ہم نے چار ہفتے کے قلیل وقت میں ترامیم تیار کیں جن کو پارلیمان نے منظور کیا ہے۔وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تقریباً 2 کروڑ روپے کی ٹیکس ادائیگی کی اپیلیں کمشنر انکم ٹیکس کے پاس جائیں گی، سیلز ٹیکس کے معاملات کمشنر کے پاس جائیں گے۔ اس سے زیادہ رقم کے ٹیکس معاملات ٹربیونلز میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹربیونلز میں جوڈیشنل ممبر کی تعیناتی وزیراعظم کاکلی اختیار تھا، نئے قانون میں وزیر اعظم اس اختیار سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ وزیرقانون نے واضح کیا کہ تبادلے اور تقرریاں کسی الزام پر نہیں کی گئیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ کسٹمز سروس میں بڑے پیمانے پرتبادلے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ اوپر سے شروع ہوا ہے جو نیچے تک جائے گا۔ ایف بی آر میں سارے تبادلے اور تقرریاں خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ماضی میں اچھا کام کرتے آ رہے ہیں اور ان کو سائیڈ لائن رکھاگیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے ملازمین کو موقع دیا گیاہے ، اس حوالہ سے کوئی سفارش نہیں تھی۔ ایف بی آر کو فری ہینڈ دیاگیا ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تقررو تبادلے کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے ایف بی آر سے کارکردگی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کے اوقات کار میں ہیراپھیری ، سمگلنگ اور انڈر ایویلیوایشن سمیت دیگر مسائل ہمارے ہیں اور ہم نے ہی حل کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوری ہمارا مسئلہ ہے ۔ انکم ٹیکس نہ دیناہمارا ایشو ہے۔ اسی طرح کم انکم ٹیکس کی ادائیگی بھی ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ سارے مسائل متعلقہ محکموں نے خود ہی ختم کرنے ہیں۔ اس کے لئے بیک جنبش قلم کلریکل سٹاف سے لے کر ڈائریکٹر جنرل یا چیف کلیکٹر تک تو تبدیل نہیں کئے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اوپر سے شروع کریں گے تو نیت بھی نظرآئے گی کہ آپ اصلاح چاہتے ہیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ قانون کے تحت پوسٹنگ اور ٹرانسفر حکومت اور محکموں کا یہ اختیار ہے اور رہے گا ، پالیسی کے تحت اس پر عمل کیا جاتا ہے، ٹیکس وصولیوں میں ایف بی اآر کا بڑا کردار ہے، قانون میں ترامیم اسی لئے کی گئی ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ سعودی عرب انتہائی کامیاب رہا، پچھلی کئی دہائیوں میں سعودی عرب کا اتنا کامیاب دورہ نہیں دیکھا گیا، سعودی ولی عہد کی ہدایت پر سعودی وزرا نے پاکستان کے مختلف شعبوں کے اندر سرمایہ کاری کا جامع پروگرام مرتب کیا، ورلڈ اکنامک فورم پر غزہ کے حوالے سے وزیراعظم کے موقف کو بھرپور پذیرائی ملی، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے اور افواہوں کا تدارک کرنا ہوگا، ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ایک ماہ کے اندر وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی، وزیراعظم کے پچھلے دورہ کے بعد مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا، عید کے فوری بعد سعودی وزیر خزانہ متعلقہ وزراء کے ساتھ پاکستان آئے اور پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے خاصی پیشرفت اور بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد اگلے چند دنوں میں سعودی عرب کی کاروباری شخصیات کا ایک بڑا وفد پاکستان آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن ہراسمنٹ کے تدارک کے لئے عوام مخصوص اتھارٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں، آن لائن سمیت ہر قسم کی ہراسمنٹ کا خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی ایسی اتھارٹی موجود نہیں جو ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ کر سکے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے بے بنیاد، غلط پوسٹوں اور ٹویٹس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد عالمی مالیاتی جریدوں میں پاکستان کے حوالے سے مثبت خبریں آ رہی ہیں۔ ہر انٹرنیشنل رپورٹ میں مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی اور معیشت کے استحکام کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل رائٹس کے تحفظ کے لئے کام ضروری ہے اور بطور پاکستانی ہم سب کی ذمہ داری ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اور افواہوں کا تدارک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل رائٹس کے تحفظ کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔گندم کی خریداری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نے حال ہی میں پاسکو کے تحت گندم کی خریداری کے ہدف کو بڑھایا ہے، کسانوں کی آسانی کے لئے میٹنگز بھی جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماریدیہی معیشت میں کسانوں کا بہت بڑا حصہ ہے، ان کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے حکومت جلد نئی ڈیجیٹل اتھارٹی کے قیام کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے دونوں وفاقی وزراء سے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ پر بل لانے پر مشاورت کی۔ قانون سازی کے لئے مسودہ تیار کر لیا گیا ہے‘ بل جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ڈیجیٹل رائٹس کی خلاف ورزی روکنے کے لئے موزوں فورم نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن